src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> ازدواجی زندگی۔خوبیوں کو دیکھیں نہ کہ خامیوں کو۔قسط نمبر٧ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 19 دسمبر، 2022

ازدواجی زندگی۔خوبیوں کو دیکھیں نہ کہ خامیوں کو۔قسط نمبر٧




ازدواجی زندگی۔خوبیوں کو دیکھیں نہ کہ خامیوں کو۔قسط نمبر٧





قاری مختار احمد ملی ابن عبدالعزیز جامعتہ الصالحین فارمیسی نگر مالیگاؤں 




۔۔۔۔۔۔جب کوئی لڑکی شادی کرکے گھر میں آئے تو ایک مدت تک اس کو ایڈجسٹ ہونے کا موقع دینا چاہئے سسرال والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی بہو کو ہر روز کام کا طریقہ سکھائیں اس کی ماں کے یہاں کا پکوان کا طریقہ الگ تھا یہاں کا طریقہ الگ ہے یہ اس ٢١ سالہ کم سن بچی کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اس لئے اس کو ایک مدت تک گھریلو امور سکھانا چاہئے لیکن پورے گھر والے اس کمسن بچی سے غلط توقعات قائم کرلیتے ہیں وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ اس کا ہر کام پرفیکٹ ہوگا۔لیکن جب وہ اس معیار پر نہیں اترتی توشادی کے چند مہینوں کے بعد ہی پنچائیت شروع ہوجاتی ہے شکایات کا لامتناہی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے پولس اسٹیشن,مہیلا منڈل,کورٹ اور دارالقضاء کے چکر شروع ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔اور پھر مودی حکومت کو مسلمانوں کے خلاف قانون بنانے کی ضرورت پڑجاتی ہے پھر حکومت کے خلاف مسلمان واویلا کرتے ہیں۔لڑکے والوں کا ایک غیر منصفانہ طریقہ یہ ہےکہ بہو کیلئے ان کا الگ قانون ہوتا ہے اوربیٹی کیلئے الگ۔بہو فجر کی نمازکے وقت اٹھ کر سارےکام شروع کردے اوربیٹی کو 11بجے تک سویا رہنے دیتے ہیں وہ یہنہیں سوچتے کہ ان کا بیٹا بہو کو نصف رات تک جگاتا ہے اس لئے کام میں تاخیر ہوسکتی ہے لیکن یہ ان کی نظرمیں ناقابل معافی جرم ہے۔اور بیٹی کو ہر قسم کی رعایت حاصل ہوتی ہے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں بہو کس حد تک گھر والوں کی خدمت کی مکلف ہےاس کا حق سکنی کیا ہے لوگ اس سے ناواقف ہوتے ہیں جس طرح مرد اپنے سسرال والوں کی خدمت کا مکلف نہیں ہوتا اسی طرح عورت بھی اپنے سسرال والوں کی خدمت کی مکلف نہیں ہوتی مگر لوگوں کو یہ سارے حدود معلوم نہیں ہیں اسی لئے فسادپیدا پوتا ہے۔ازدواجی تنازعات پیدا ہوتے ہیں اورپھر طلاق کی نوبت پیش آتی ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages