مالیگاؤں : مسجدوں میناروں کا شہر مالیگاؤں, علم و ادب کا گہوارہ مالیگاؤں اس وقت نم آنکھوں سے ایک سوال کررہا ہے کہ کوئی ہے جو پوری ایمانداری اور غیر جانبداری سے میرا احوال سنیں. میرے درد کو سمجھے. کیونکہ پچھلی 4 دہائی سے زائد عرصے میں صرف میرا استحصال ہوا. میرے وجود کے ایک ایک ٹکڑے پر سیاست کی گئی. جب میں میونسپلٹی تھا تب بھی میں اتنا غمزدہ اور خستہ حال نہیں تھا. میونسپلٹی سے کارپوریشن تک کے اس سفر میں مجھے ہر لمحہ اچھے دنوں کی آس دلائی گئی. میں خوشی سے جھوم اٹھا کہ چلو میں ضلع نہیں بنتا نہ سہی, ریلوے لائن نہیں بچھائی جاتی نہ سہی مگر میں کارپوریشن بن کر دوسرے شہروں کی صف میں تو کھڑا ہوگیا مگر آج عالم یہ ہے کہ میرا پیراہن (سڑکیں) جگہ جگہ سے چاک ہوچکا ہے. ایسے میں جب گاڑیاں مجھ پر سے دندناتی ہوئی گزرتی ہیں تو میرا پور پور زخمی وجود آہ و فغاں کرنے لگتا ہے. آج کارپوریشن ہوکر میرا حال کسی دیہات سے بھی بدتر ہے. کبھی مجھ پر پانی کے نام پر سیاست کی جاتی ہے تو کبھی سڑکوں اور گٹروں کے نام پر میرا استحصال کیا جاتا ہے. ارے بابو اتنا تو میں میونسپلٹی کے زمانے میں بھی بے یار و مددگار اور مفلوک الحال نہیں تھا جتنا کارپوریشن بننے کے بعد ہوں. ارے احمقوں میرا درد سمجھو اور مجھے میرے وہ پرانے دن لوٹا دو جب میں سرسبز و شاداب تھا. ہر وقت ہنستا مسکراتا تھا.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں