جب 1971 کی جنگ میں ہندوستانی فوج کے ایک افسر نے بچائی تھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جان ۔
ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ ایک بار پھر بھارت کا دورہ کر رہی ہیں۔ شیخ حسینہ 5 سے 8 ستمبر تک ہندوستان کا دورہ کریں گی۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات کو 50 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ شیخ حسینہ کا بھارت سے ایسا خاص تعلق ہے کہ وہ چاہ کر بھی بھلا نہیں پائیں گی۔ 1971 میں جب ہندوستان اور پاکستان کی جنگ ہوئی تو بنگلہ دیش بنا۔ اس سے بھارت کو نیا پڑوسی مل گیا۔ اس جنگ کے دوران شیخ حسینہ اور ان کے پورے خاندان کی جان کو خطرہ تھا تو اس وقت بھارتی فوج نے آگے آ کر ان کی جان بچائی۔ حسینہ واجد خود بھی اس کہانی کا کئی بار ذکر کر چکی ہیں جبکہ کئی ریٹائرڈ بھارتی فوجی بھی اس کے بارے میں بتا چکے ہیں۔
بھارتی فوج کے ریٹائرڈ کرنل اشوک تارا نے ایک بار انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ کس طرح انہوں نے سامنے کھڑے پاک فوج کے جوانوں کو دھوکہ دے کر حسینہ کے پورے خاندان کی جان بچائی تھی۔ 1971 کی جنگ کے وقت اشوک تارا کی عمر محض 29 سال تھی اور وہ ایک نوجوان فوجی افسر کے طور پر تعینات تھے۔ اشوک تارا کو آج بھی یاد ہے کہ کس طرح انہوں نے صرف دو جوانوں کی مدد سے شیخ حسینہ کے والد اور بنگلہ دیش کے سابق وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کے خاندان کی حفاظت کی تھی۔
شیخ حسینہ اس وقت اپنے نومولود بچے کے ساتھ دھنمونڈی میں اپنے والد کے گھر تھی۔ پاکستان آرمی کے اہلکار ان کے گھر کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔ گھر کے اندر کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ جیسے ہی کوئی کوشش کرتا پاک جوان فائرنگ شروع کر دیتے۔ کرنل تارا کے مطابق جب وہ شیخ حسینہ کے گھر کے قریب پہنچے تو انہیں روکا گیا اور ایک صحافی کی لاش دکھائی گئی۔ کرنل تارا کے پاس صرف دو جوان تھے اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ وہ کوئی حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو گھر کے اندر موجود لوگوں کی جاں مشکل میں پڑ جاتی۔
کرنل تارا نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر کے اندر موجود لوگوں کی جانیں بچائیں گے۔ انہوں نے دونوں سپاہیوں اور اپنے ہتھیاروں کو وہیں چھوڑ دیا۔ کرنل تارا بغیر اسلحہ کے گھر کے قریب پہنچے اور پوچھا کہ گھر میں کوئی ہے؟ کرنل تارا کو جو جواب ملا وہ پنجابی میں تھا اور پنجابی ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ گئے۔ یہاں تک کہ انہیں روکنے کے لئے گولی مارنے تک کی دھمکی دی گئی۔ پھر انہوں نے ایک چال چلی۔ کرنل تارا نے پاکستانی فوجیوں کو بتایا کہ وہ ہندوستانی فوج کا افسر ہے اور پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
پاکستانی فوجیوں نے اس پر یقین نہیں کیا اور کرنل تارا کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ اس پر کرنل کچھ دیر خاموش رہے، پھر انہوں نے پاکستانی فوجیوں سے صورتحال سمجھنے کو کہا۔ ابھی جب کرنل پاکستانی فوجیوں کو سمجھا رہے تھے کہ ایک بھارتی ہیلی کاپٹر ان کے اوپر سے گزرا اور کرنل نے انہیں اپس کی طرف دیکھنے کو کہا۔ سپاہیوں نے دیکھا اور تھوڑا سا پرسکون ہو گئے۔ اتنی دیر میں کرنل گھر کے گیٹ تک پہنچ گئے تھے۔ اسی وقت انہیں محسوس ہوا کہ کوئی رائفل ان کے جسم کو چبھ رہی ہے۔ اس کے بعد بھی وہ مجیب الرحمان سے بات کرتے رہے۔ وہ تھوڑا بے چین تھے لیکن مشن ان کے لیے جان سے زیادہ قیمتی تھا۔
وہ 25 منٹ تک رحمان سے بات کرتے رہے اور اس دوران پاکستانی فوج کے کمانڈروں نے بندوقیں لوڈ کرنے کا حکم دیا۔ فوجیوں کو دوسرے گھروں پر گولی چلانے کے احکامات بھی مل چکے تھے۔ لیکن کرنل تارا وہیں کھڑے رہے۔ انہوں نے پاکستانی فوجیوں سے کہا کہ وہ کل 12 افراد ہیں اور اگر انہیں کچھ ہوا تو پاکستانی فوج کے جوان اپنے گھروں تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ فوجیوں کو یقین دلایا گیا کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو انہیں ہیڈ کوارٹر لے جایا جائے گا۔ اس کے بعد یہ دونوں پاکستان میں اپنے گھر جا سکیں گے۔
اس یقین پر دونوں پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور شیخ حسینہ کی والدہ نے دروازہ کھول دیا۔ ان کی ماں نے کرنل تارا کو بتایا کہ وہ خدا کے فرشتے ہیں جسے ان کی جان بچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ شیخ حسینہ کی والدہ نے زور سے 'جے بنگلہ' کا نعرہ لگایا اور پاکستانی پرچم کو اپنے پیروں سے کچل دیا۔ کرنل تارا کو ان کی بہادری پر اشوک چکر سے نوازا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں