پلیس آف ورشپ قانو ن کی حفاظت کرنا ضروری، جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کی
اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے: گلزار احمد اعظمی
نئی دہلی، 7ستمبر2022: گیان واپی مسجدمقدمہ ایک جانب جہاں ورانسی کی ضلع عدالت میں چل رہا ہے وہیں سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی ایک سے زائد ایسی عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں جو پلیس آف ورشپ قانون کو غیر آئینی قرار دینے کی عدالت سے گذارش کررہی ہیں۔ سال 2020 میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں پلیس آف ورشپ (عبادت گاہوں کا تحفظ)قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ) نامی شخص نے داخل کی تھی جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 1246/2020ہے۔ متذکرہ پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیئے جمعیۃ علماء ہند نے بذریعہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول مداخلت کار کی عرضداشت سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کردی ہے جس پر جمعہ یعنی کے 9/ ستمبر کو سماعت متوقع ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس یو یو للت کی سربراہی والی تین رکنی بینچ جس میں جسٹس ایس رویندر بھٹ، جسٹس پی شری نرسہما شامل ہیں اس اہم مقدمہ کی سماعت کریگی۔اسی درمیان صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہندنے سپریم کورٹ میں ایک تازہ پٹیشن داخل کی ہے اور عدالت سے گذارش کی ہیکہ وہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے اور اس کے موثر نفاذ کے لیئے فوری اقدامات کرے تاکہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کی جانے والی بے لگام قانونی چارہ جوئی پر لگام لک سکے۔رٹ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہیکہ اس قانون کے موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں بشمول قطب مینار، متھرا کی عیدگاہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان عبادگاہوں کو فضول تنازعات کا شکار بنایا جارہا ہے نیزملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کوپریشان کیا جارہا ہے جبکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے۔رٹ پٹیشن میں مزید لکھا گیا ہیکہ نا صرف مقدمات قائم کیئے جارہے ہیں بلکہ نچلی عدالتوں نے مختلف مقامات پر اسٹیٹس کو بھی تبدیل کردیا ہے جو پلیس آف ورشپ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، اس طرح کے مقدمات قائم کرکے دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلائی جارہی ہے جس کو روکنا ضروری ہے۔پٹیشن میں مزید درج کیاگیاہے کہ پلیس آف ورشپ قانون 1991 نافذکرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھااور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے(پیرگراف 99، صفحہ 250)نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔عرضداشت میں مزیدکہاگیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے گی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔اس ضمن میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے کہا کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق15،اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت تمام مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا اس کے باوجود مسلمانوں کی مساجد، عید گاہوں اور دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔گلزار اعظمی نے کہا کہ ہندو تنظیموں نے تقریباً دو ہزار ایسے مقامات کی فہرست تیار کی ہے جس پر ان کا دعوی ہیکہ پہلے یہ مقامات مندر اور دوسرے ہندو عبادگاہوں کے مقامات تھے لیکن مسلم حملہ آوروں نے انہیں تبدیل کرکے اسے مساجد و خانقاہوں میں تبدیل کردیا ہے لہذاوہ اسے واپس لینے کے لیئے ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات داخل کررہے ہیں جبکہ عباد گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔واضح رہے کہ اس قبل بھی ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پٹیشن داخل کی گئی ہے جس میں انہوں نے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کوسینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کے مشورہ سے ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃالعین، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سیف ضیاء نے تیار کیا ہے جس میں گلزار احمد اعظمی سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیۃ علماء ہند مدعی بنے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں