بیوہ کی مدد کرنے پر ملے طعنے، شادی کر کے رشتے کو دیا نام تو گاؤں چھوڑنے کا جاری ہوا فرمان۔
بہار کے مظفر پور میں ایک بیوہ کو دوبارہ شادی کرنے کے بعد پنچایت نے اسے گاؤں سے باہر جانے کا حکم دیا۔ سماج کے طعنوں سے پریشان خاتون نے جب اپنے ساتھی سے شادی کی تو گاؤں کے لوگوں کو اس قدر ناگوار گزرا کہ اس نے دونوں کو گاؤں چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ جس کے بعد خاتون نے پولیس سے رجوع کیا۔ معاملہ مظفر پور کے دیوریا تھانہ علاقے کی چاند کباڑی پنچایت کا ہے۔
یہاں آنگن واڑی ورکر کے طور پر کام کرنے والی انورادھا کماری نے کچھ دن پہلے گاؤں کے دھرمیندر سے شادی کی۔ دونوں کی شادی سے مقامی لوگ ناراض ہوگئے اور انہیں گاؤں چھوڑنے کا حکم دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ فرمان سنانے والوں میں ایک استاد بھی شامل ہے۔
انورادھا کماری کی شادی 2015 میں ہوئی تھی۔ پچھلے سال اس کے شوہر کی بیماری کی وجہ سے موت ہو گئی۔ اس کے بعد جب گزر بسر میں مسائل شروع ہوئے تو وہ گاؤں کے نوجوان دھرمیندر کی مدد سے آنگن واڑی میں کام کرنے لگی۔ اس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اسے اور دھرمیندر کو طعنہ دینا شروع کر دیا۔ پھر انورادھا اور دھرمیندر نے طعنوں سے پریشان ہو کر شادی کرلی اور دوستی کے رشتے کو میاں بیوی کا نام دے دیا۔ انورادھا نے بتایا کہ شادی کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ کوئی ان دونوں کو گالی نہ دے لیکن اب معاملہ الٹا ہوگیا ہے۔
دونوں کی شادی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد استاد جیرام ساہ کی قیادت میں پنچوں نے حکم دیا کہ وہ جلد از جلد گاؤں چھوڑ دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پنچوں نے گاؤں نہ چھوڑنے کی صورت میں سنگین نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی بھی دی۔ جس کے بعد انورادھا نے پولیس سے انصاف کی اپیل کی۔ انورادھا نے کہا کہ کیا انہیں جینے کا حق نہیں ہے؟ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ہے لیکن آج بہار میں ایک بیوہ کی زندگی کو دوبارہ گھر بسانے کی آزادی نہیں ہے۔
ساتھ ہی متاثرہ کو کیس میں پولیس کا مسلسل تعاون حاصل رہا۔ دیوریا کے ایس ایچ او ادئے کمار نے اس معاملے پر بتایا کہ دونوں بالغ ہیں، اگر انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ پنچوں کا گاؤں چھوڑنے کا حکم قانونی طور پر غلط ہے۔ معاملے کی تحقیقات کے بعد قصورواروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں