معاشی طور پر کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے قانونی امداد کے لئے جمعیۃ علماء کا شکریہ ادا کیا
موجودہ حالات میں ہندو مسلم اتحاد نہایت ضروری جس کے لئے جمعیۃ کوشاں ہے: گلزار اعظمی
ممبئی 3/اگست : مہاوترن معاملے میں بامبے ہائی کورٹ کی جانب سے معاشی طور پر کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے حق میں فیصلہ دیئے جانے کے بعد آج امیدواروں نے سیکریٹری حکومت مہاراشٹر، ایم ڈی مہاوترن اور سیکریٹری محکمہ بجلی کے دفاتر پہنچ کر میمورنڈم دیا اور انہیں نوکریوں پر فوراً لیئے جانے کی گذارش کی۔
واضح رہے کہ گذشتہ جمعہ کو چیف جسٹس بامبے ہائی کورٹ جسٹس دپانکر دتہ اور جسٹس ایم ایس کارنک نے اہم فیصلہ صادر کیا جس کے مطابق معاشی طور پر کمزور طبقہ Economically Weaker Section سے تعلق رکھنے والے ہندو مسلم بچوں کو محکمہ بجلی (مہاوترن) میں اسسٹنٹ کی پوسٹ پر نوکری مل سکے گی۔عدالت نے حکومت کی جانب سے جاری کیئے گئے خصوصی جی آر کو غیر قانونی قرار ردیتے ہوئے معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے امیدوار جس میں ایک بڑی تعداد مسلم نوجوانوں کی ہے کو بڑی راحت دی۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے تقریباً دیڑھ سو مسلم نوجوانوں کو فائدہ ملنے کی امید ہے۔اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم نوجوانوں کو بھی فائدہ حاصل ہوگا جب کی بڑی تعداد ہے۔
معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے راہول بسون اپپا والے، شیونند کالے، دوال شیخ، سید توصیف علی، ویبھو کناڈے اور گنیش پردیپ کی جانب سے ایڈوکیٹ افروز صدیقی نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے توسط سے بامبے ہائی کورٹ میں پٹیشن(Civil Writ Petition 1054/2021) داخل کی تھی جس میں معاشی طور پر کمزور طبقات کے ساتھ کی جانے والی نا انصافی کا ذکر کیا گیا تھا جنہیں حکومت مہاراشٹر نے نئے جی آر جاری کرکے ان کو نوکریوں سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے نے اس نا انصافی پرنا صرف روک لگائی بلکہ جی آر کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا۔
بامبے ہائی کورٹ سے راحت ملنے کے بعد آج ان امیدواروں نے جس میں ہندو مسلم سب شامل تھے جو مہاراشٹر کے مختلف اضلاع اورنگ آباد،ناندیڑ،پربھنی،بیڑ،آکولہ،
اس موقع پر عرض گذار امول نرالے اور محمد زبیر پٹیل نے کہا کہ حکومت ان کے ساتھ نا انصافی کررہی تھی اور مراٹھا لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیئے غیر آئنی جی آر جاری کیا ایسے میں ہمارے لئے بامبے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا، اس کے لئے ہائی کورٹ کے وکیلوں نے ہم سے خطیر رقم کا مطالبہ کیا جو ہمارے لئے ایک مشکل کام تھا۔ امول نرالے نے مزید کہا کہ ہمارے کچھ مسلمان ساتھیوں کے کہنے پر ہم نے جمعیۃعلماء سے رابطہ قائم کیاجس پر ایڈوکیٹ افروز صدیقی سے اس مقدمہ کو ہائی کورٹ میں داخل کرنے کی ہدایت کی گئی اور آج بھگوان کی کرپا سے ہمیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی، جس کے لئے ہم جمعیۃعلماء کے شکر گزار ہیں۔ہم نے اس سے قبل سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں سے بھی ملاقات کی تھی لیکن صرف زبانی یقین دہانی کے ہمیں کچھ نہیں ملا۔
اس موقع پر گلزار اعظمی نے دفتر میں تشریف لائے امیدواروں سے کہا کہ جمعیۃعلماء 1919میں قائم ہوئی جس کا مقصد ہی ظلم و نا انصافی کے خلاف مظلوموں کی مدد کرنا اور ہندو مسلمانوں میں میل جول کو بڑھاوا دینا ہے۔آج جبکہ موجودہ حکومت ان لوگوں کی جو ملک میں فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں سر پرستی کر رہی ہے اس وقت ہندو مسلم اتحاد کو تقویت پہونچانے کے لئے کوشش کرنا بہت ضروری ہے، جب آپ لوگوں نے جمعیۃ علماء سے رجوع کیا تو جمعیۃعلماء نے ان غیر مسلم امیدواروں کو بھی اپنی پٹیشن میں شامل کرلیا تاکہ ان دوستوں کو معلوم ہو کہ مسلمانوں کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے وہ غلط ہے،ہم نے اپنے غیر مسلم دوستوں کے لئے جو کچھ کیا ہے وہ اس کو اپنے سماج میں بتائیں تاکہ نفرت کم ہو اور دوستی کو بڑھاوا ملے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ یہ انصاف کا تقاضہ ہیکہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں امیدواروں کو فوراً نوکریوں پر لیا جائے کیونکہ پہلے ہی ان امیداواروں کے چار قیمتی سال ضائع ہوچکے ہیں۔
خیال رہے کہ سال 2018-19 میں مہاراشٹر حکومت نے محکمہ بجلی (مہاوترن) میں اسسٹنٹ کی پوسٹ کے لیئے اشتہار نکالا تھا اور اور اس کے بعد امتحان لیا گیا جس میں معاشی طور پر کمزور طبقہ Economically Weaker Section سے تعلق رکھنے والے ہندو مسلم بچوں نے کامیابی حاصل کی تھی اسی طرح سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات Socially and Educational Backward Communitiesسے تعلق رکھنے والے بچوں نے بھی کامیابی حاصل کی تھی لیکن اسی درمیان سپریم کورٹ آف انڈیا نے مراٹھا ریزورشن پر اسٹے لگادیا جس کے بعد سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئیں جس کے بعد حکومت مہاراشٹر نے سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کو معاشی طور پر کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچوں پر فوقیت دینے کا جی آر جاری کیا جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں