src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> آج تحریر اپاہج ہے قلم گونگا ہے ؂ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 26 اگست، 2022

آج تحریر اپاہج ہے قلم گونگا ہے ؂

 



آج تحریر اپاہج ہے قلم گونگا ہے ؂



میں کئی روز سے اس ناانصافی پر لکھنے کے لئے بیچین تھی کہ میں بلقیس بانو کے ساتھ ہوئی نا انصافی کے خلاف احتجاج کروں ؟ سوال کروں؟  کون اس عہد میں سچ بولے گا؟ مگر قلم خاموش ہوگیا۔ اس  خوف سے اس کی سیاہی خشک ہوگئی کہ وہ لکھے گا تو حکومت کے لمبے ہاتھ, پولس کے خونخوار پنجے، اور یو اے ،پی اے جیسے قانون اس کی  گردن دبوچ لیں گے اس کی تحریر غداری میں شمار کی جائے گی ۔لکھنے والوں اور بولنے والوں  کے پوسٹر لگا دئے جائیں گے۔ لاٹھی ڈنڈوں سے خاطر تواضع کی جاے گی ۔ بچے بے گھر کر دیے جائیں گے ۔ آفرین فاطمہ،ڈاکٹر کفیل ،عمر خالد ،کپن صدیق جیسا حشر میرا بھی ہوگا ۔ مگر کیا کروں میرا ضمیر ابھی مرا نہیں۔ میں سوال کرونگی ۔نربھیا کیس ہوا تو ملک کے کونے کونے سے، ہر شہر ہر گلی ہر کوچے سے جرم کےخلاف مظلومیت کی حمایت میں آواز بلند ہوئ اور نربھیا کو انصاف ملا ، جب کی بلقیس بانو  کی اجتماعی عصمت دری ، معصوم بیٹی کا قتل اہل خانہ کا بے دردی سے قتل ہوے  یا   رابعہ  کی  عصمت دری ہوئ رابعہ کا قتل ہوا تو ہر طرف خاموشی تھی   ایسا کیوں ؟ کیونکہ وہ مسلمان تھی ۔ کیونکہ اس قتل میں عام لوگ شامل نہیں تھے    بلقیس بانو کےمجرموں کے سر پر بی جے پی حکومت کا دست شفقت ہے ۔رابعہ کے قاتلوں کے ہاتھ یقینا لمبے ہونگے ،  یا اس لئے کہ  رابعہ مسلم قوم سے تعلق رکھتی تھی  ؟ عام آدمی پارٹی ہو یا بی جے پی کانگریس ہو یا سماج وادی  پارٹی، سب خاموش ہیں،   بیٹی کسی بھی مذہب کی ہو گھر اور  ملک کی عزت ہوتی ہے ۔ سرکاریں کیوں خاموش ہوجاتی ہیں؟ اور کسی بےگناہ کو کیوں مجرم بنا دیتی ہیں؟  نربھیا کے قاتلوں اور زانیوں کو سزا ملی تو بلقیس بانو کے مجرموں قاتلوں اور زانیوں کو رہا کیوں کر دیا گیا ؟ کیا اس لئے کہ بلقیس بانو مسلمان ہے؟ بات صاف ہےکہ  بلقیس بانو نربھیا یا جیوتی نہیں ہیں جنہیں ا نصاف مل جاے گا یہ بلقیس بانوں ہیں ایک مسلم اور وہ بھی خاتون ، زانیوں اور قاتلوں کو رہائ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ اس ملک سے انصاف کی دیوی کو نکال باہر کیا گیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ منصفوں کے  ضمیر گروی   رکھے جا چکے ہیں ۔اس نا انصافی نے قاتلوں اور زانیوں کے حوصلے بلند کر دئے ہیں ۔اور یہ اسی وزیر اعلی کے وقت کے قاتل و زانی ہیں جو موجودہ  وزیر اعظم ہیں ۔ اس وقت  نریندر  بھائ مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے ۔  مسلمانوں کے معصوم بچے جیلوں  میں قید ہیں ضمانت کی عرضی تک منظور نہیں ہو رہی ہے اور گجرات کے قاتلوں اور زانیوں کو بہترین کردار کا سرٹی فیکیٹ دے کر رہا کیا  جا رہا ہے ۔بے حسی ،نا انصافی ، اور  مسلمانوں سے نفرت کی یہ انتہا ہے جناب۔
سب خاموش ہیں ۔ کیا کریں لوگوں کے حوصلے پست ہوگئے ہیں ۔ کیونکہ اس ملک میں جمہوریت کو بھی قتل کر دیا گیا ہے جس کی تازہ مثال آپ لو گوں کے سامنے ہے کئ ہزار نوجوان ہیں جو  احتجاج کے جرم میں قید ہیں زیادہ احتجاج ہوگا تو حکومت کے بلڈوزر آشیانہ مسمار و منہدم ہی نہیں نیست و نابود  کر کے بے آسرا کر دینگے ۔  پر و فیسر احتجاج کریں گے تو گھر سے بے گھر بھی ہونگے اور ریپ کیس میں بھی ملوث بھی قرار پائیں ۔صحافی بولیں گے تو کپن صدیق کی طرح جیل کی ہوا کھائیں گے
طلباء بولیں گے تو آفرین فاطمہ ،کی طرح بے گھر و بے آسرا ہو جائیں گے عمر خالد کی طرح قید کاٹیں گے ، ڈاکٹر آواز اٹھا ئیں گے تو ڈاکٹر کفیل کی طرح ہمیشہ کے لئے برخاست ہو جائیں اور غداری کے جرم اندر ہوجائیں گے ۔بیوی بچے ،ماں باپ رو رو کربےحال ہو جائیں گے ۔فاقوں کی نوبت آجاے گی ۔ کون ہمت کرے ؟ کون اس عہد میں سچ بولے گا ؟ جج بولیں گے تو راتوں رات غائب ہوجائیں گے تبادلہ ہو جاے گا یا خود کشی کر چکے ہونگے یا کوئ آٹو والا ان کو ٹکر مار کر ملک عدم پہنچا دیگا
ایسے بہت  سے خونی حادثات،واقعات،فسادات، تاریخ کے صفحات پر رقم ہیں ۔اکثر امتحانات میں تاریخ سے سوالات پوچھے جاتے ہیں، مثال کے طور پر تقسیم بنگال کس نے کرایا؟ کس کے دور میں ہوا؟  کب ہوا؟ جلیاں والا قتل عام کب ہوا؟ کس نے کرایا؟ کہاں ہوا؟ وغیرہ وغیرہ اسی طرح( سی بی ایس سی)سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے امتحانات میں  بارھویں درجہ کے سماجی مطالعہ(سوشل اسٹڈی) کے پرچے میں طالب علموں سے  ایک سوال کیا گیا ،سوال تھا 2002 ،میں جب  گجرات کے اندر  مسلم مخالف فساد ہوا جسے گودھرا فساد کہتے ہیں اس وقت کسی
سیاسی پارٹی کی حکومت تھی؟ ظاہر ہے اس سوال کا جب بھارتیہ جنتا پارٹی ہی ہوگا ۔یہ قتل عام 28 فروری 2002سابر متی ایکسپریس سے شروع ہوا تھا جس کی بوگیوں میں آگ لگا دی گئ تھی اور 59 لوگوں کی جان گئ تھی اور جنونی رام بھکتوں ،سویم سیوکوں نے اس سازش کا الزام مسلمانوں پر لگایا اور بدلہ  کےطور پر   گجرات میں جو نفرت کی آگ بھڑکائ گئ  اس آگ میں  2044  بے قصور  مسلمان  بوڑھے ،جوان بچے ،خواتین چن چن کر بے دردی سے مارے گئے خندق کھدوا کر زندہ درگور کیا گیا ،گھروں میں پانی بھر کے بجلی کا کرنٹ ڈال دیا گیا، حاملہ  خاتون کا پیٹ تلوار سے چاک کردیا گیا، گودھرا سانحہ کے بعد فروری 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات کے دوران حاملہ خاتون بلقیس بانو کی اجتماعی آبروریزی کی گئي تھی اور اس کے 14 رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔بلقیس بانو کی تین سالہ معصوم بیٹی صالحہ کو قتل کر دیا گیا ۔ بیس برس کے صبر آزما  طویل انتظار کے بعد آزادی کے پچھترویں برس کی خوشی کے عوض یہ کیسا انصاف ہوا ؟ قاتل و زانی بری ہوگئے ۔ صرف اس لئے کہ بلقیس بانو مسلمان ہے ۔اس ملک میں مسلمانوں کے لئے منصفوں کے ضمیر مردہ ہوگئے ہیں ۔عدالتوں میں انصاف کا ترازو لئے  کھڑی دیوی کے ہاتھ اپاہج ہو چکے ہیں آنکھوں پر بندھی پٹی جو اس لئے بندھی تھی کہ یہ عدالتوں میں بلا تفریق مذہب و ملت ، امیر غریب ،ذات پات ،رنگ روپ ، بے قصور و مظلوم کو کو انصاف دیا جاے گا ۔ اس پٹی پر حکومت نے ہندتوا کی پٹی باندھ دی ہے ۔ کیا یہی  انصاف ہے؟  یہ فیصلہ صرف  غلط ہی نہیں یہ مظلومیت پر ظلم  ہے ۔ یہ سچ بولنے کی  طاقت کسی زبان میں نہیں رہی ۔ کیا گجرات کے گودھرا قتٗل عام کی خونی تاریخ بھلا دی جاے گی؟  کیا سوال نہیں ہونا چاہئے کہ گودھرا فساد کب ہوا؟ کس کے دور میں ہوا؟  کتنے بے گناہ مارے گئے ؟ اس حاملہ خاتون کا نام کیا تھا جس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئ ؟مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی جانب سے ہائی کورٹ میں دلیل دیتے ہوئے مسٹر ہیتن وینیگاؤنکر نے کہا تھا کہ  یہ 'قتل عام' کا واقعہ ہے۔ فسادات کے دوران نومولود بچے سمیت ایک خاندان کے 14 افراد اس وقت قتل کر دیئے گئے تھے، جب وہ جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ اس دوران لوگوں کی آبرو ریزی بھی کی گئی۔ یہ انوکھا وحشیانہ معاملہ ہے اور اس میں سب سے سخت سزا ملنی چاہئے۔ سی بی آئی نے 11 ملزمان میں سے تین اہم ملزمان کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا، جسے ہائی کورٹ نے رد کردیا۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے ٹرائل کورٹ کی طرف سے بری کئے گئے 5 پولس اہلکاروں کے خلاف پھر سے تفتیش کرنے کا حکم دیا تھا، کیا یہ خونی فسادات ،وحشیانہ  قتل عام بھلاے جانے کے قابل ہے؟ یا معافی کے لائق ہے ؟   اگر سی بی ایس سی کے یا کسی بھی امتحان میں یہ سوال نہیں کیا جاسکتا کہ 2002 کے گودھرا قتل عام کے وقت  کس پارٹی کی حکومت تھی ؟  اس وقت کون گجرات کا وزیر اعلی تھا؟ آخر جلیاں والے قتل عام کے لئے جنرل ڈائر ہمیشہ یاد کیا جاتاہے ،تقسیم بنگال کے لئے لارڈ کرزن یاد کیا جاتا ہے ،1857 کے غدر پر سوال ہوتا ہے، کاکوری قتل عام پر سوال ہوتا ہے پھر گجرات اور گودھرا قتل عام پر سوال سے حکومت کو ناراضگی کیوں ہوئ؟  سی بی ایس سی کو معافی کیوں مانگنی پڑی ؟ اور سوال بنانے والے پر سخت کاروائ کیوں ہوگی ؟ سچ پوچھنا گناہ ہے کیا تاریخ دفن کرنے کی چیز ہے ؟ یہ سوال سی بی ایس سی جیسے مرکزی تعلیمی ادارہ جس کی کتابوں کا مطالعہ کرکے طالب علم آئ  اے ایس ،پی سی ایس،آئ پی ایس جیسے سول سروسز کے مقابلہ جاتی امتحانات پاس کرکے ملک کا انتظامیہ نظام سنبھالتے ہیں ایسے ادارہ کو سیاست کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں ،معافی مانگنی پڑے تو ظاہر ہے  جمہوریت کا ہی نہیں تعلیمی نظام اور تاریخ کا بھی گلا گھونٹا  جا رہا ہے  صرف اس لئے کہ انتخابات عنقریب ہیں مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے وہی بی جے پی جس کی 2002 گجرات میں بھی حکومت تھی وہی نریندر داس مودی جو آج بھارت کے وزیر اعظم ہیں 2002گجرات میں بھی وزیر اعلی تھے۔جیسے دہلی میں مسلمانوں کو  جلا گیا اسی طرح گجرات میں بھی ہوا تھا ،لوگوں نے دوسرا گجرات قتل عام نام دیا تھا۔کیا تاریخ کو بھلایا جاسکتا ہے؟ اور خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جاے گا اور خون کا داغ تو  جم چکا ہے بی چے پی کے دامن پر 
  لا گا  چنری میں داغ چھاؤں کیسے ؟ سی بی ایس سی کو ڈرا کر دھمکا کر معافی منگوانے سے بی جے پی کے گناہ چھپ نہیں سکتے ۔ اور نہ تاریخ اس خونی قتل عام کو فراموش کر سکتی ہے۔ مگر  بیس برس بعد ایسا انصاف؟  قاتلوں اور زانیوں کو رہائ اسے کیا  نام دیں ؟ کیا بھارت کے تمام قانون دانوں کے ضمیر فوت ہوگئے ہیں؟ ہے کسی میں انسانیت باقی   جو بلقیس بانو جیسی مظلوم خاتون کو انصاف دلا سکے ؟ ہے کوئ قانون ن دان اور انسانیت کی حمایتی تنظیم جو  مسلمانوں کے بے قصور نوجوان نوجوانوں کو رہائ دلا سکے ؟ امید کرتی ہوں لوگ بلقیس بانو کے درد کو اپنا درد سمجھیں گے ان پر ہوے ظلم کو اپنی بیٹیوں تک پہنچنے سے روکیں گے ۔ورنہ کل وہ آج ہماری باری ہے ۔ امید کرتی ہوں میری تحریر اس ملک کے لوگوں کو حوصلہ دے سکے گی ۔سوئ ہوئ انسانیت کو بیدار کر سکے گی۔

ڈاکٹر کہکشاں عرفان
Dr.kahkashanirfan1980@gmail.com 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages