شرمناک اعداد و شمار!
غزہ پہ آتش و آہن کی برسات جاری۔ مسلم حکمراں مٹکا بھر دھنیا پی کر محو خواب ہیں۔ رات بھر شوگیرہ کرتے ہیں اور دن بھر خراٹے لیتے ہیں۔ زیادہ دباؤ میں آئیں تو بیان داغ کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ لیکن بیان کی پھونک سے ہوا نکلتی ہے گولی نہیں اور اسرائیل کا جواب گولی ہے۔ وہ جلوس سے نہیں جوتے سے مانتا ہے۔ کل سے بلا اشتعال تباہ کن بمباری جاری ہے۔ وہی حربہ شہری اور رہائشی آبادیوں کو بنانے کا۔ یوکرین کیلئے سارا جہان کا درد اک اپنے جگر میں سمیٹنے والے عالمی منافقین سب خاموش۔ ان سے گلہ بھی نہیں کہ اغیار ہیں۔ مجرمانہ خاموشی مسلم ممالک نے اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن یہ مسلمان ملک اسرائیل کا مقابلہ کیا کریں گے۔ جو اس سے اربوں ڈالر کی سالانہ تجارت کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں عظیم ترکی، پاک باز سعودی عرب، غیرت مند ملائیشیا، جذباتی انڈونیشیا اور ہاشم خیل اردن بھی شامل ہیں۔ 2008ء میں مسلمان ملکوں کو فروخت کی جانے والی اسرائیلی برآمدات کا حجم 2 ارب 53 کروڑ ڈالر تھا۔ اس معاملے کے تازہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، کیونکہ دونوں فریق اس معاملے کو پوشیدہ رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ نمایاں مسلمان تجارتی حصہ داروں میں ترکی، اردن، مصر، آذربائیجان اور قزاقستان شامل ہیں۔ صرف ان 5 ملکوں کو اسرائیل نے 2008ء میں 2 ارب 32 کروڑ ڈالر کا سامان فروخت کیا۔ جبکہ 2009ء میں 1 ارب 77 کروڑ ڈالر کا مال بیچا۔ اسی برس یعنی 2009ء میں الجیریا نے 3 لاکھ 53 ہزار ڈالر کا اسرائیلی سامان خریدا۔ سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، لبنان اور ایران نے 280 ملین ڈالر کا مال منگوایا۔ جی ہاں، ایران نے، ہاتھی کے دانت دکھانے کے مگر کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے 2008ء میں 38 اعشاریہ 4 ملین ڈالر کا سامان خریدا۔ اور 2009ء میں 20 ملین ڈالر کا مال منگایا۔ اسی طرح 2009ء میں لبنان نے 1 لاکھ 62 ہزار ڈالر کا۔ سعودی عرب نے 6 لاکھ 81 ہزار ڈالر کا۔ شام نے 7 اعشاریہ 77 ملین ڈالر کا۔ عراق نے 3 اعشاریہ 45 ملین ڈالر کا۔ پاکستان نے 1 اعشاریہ 17 ملین ڈالر کا۔ ایران نے 4 ملین ڈالر کا سامان خریدا۔ اسرائیل سے خفیہ یا اعلانیہ تجارت کرنے اور سامان خریدنے والے دیگر مسلمان ملکوں میں ازبکستان، انڈونیشیا، البانیہ، بحرین، بنگلہ دیش، گنی، گیمبیا، تاجکستان، ترکمانستان، کویت، موریطانیہ، ملائیشیا، مراکش، نائیجر، سینیگال، عمان، قطر اور کرغیزستان شامل ہیں۔ جبکہ اسرائیل کو سامان بیچنے والے نمایاں مسلمان ملکوں میں ترکی، مصر، اردن، ملائیشیا اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ ان 5 ملکوں نے اسرائیل کو 2008ء میں 2 ارب 45 کروڑ ڈالر کا سامان بیچا۔ جبکہ امارات نے 53 ملین ڈالر، عراق نے 7 لاکھ 59 ہزار ڈالر کا مال فروخت کیا۔ 2009ء میں سعودی عرب نے 2 لاکھ 65 ہزار ڈالر کا مال اسرائیل کو بیچا اور پاکستان نے 2 اعشاریہ 3 ملین کی اشیا فروخت کیں۔ دیگر جن ملکوں کے تاجروں اور تجارتی اداروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ ان میں ازبکستان، البانیہ، بحرین، بنگلہ دیش، گنی، تاجکستان، تیونس، ترکمانستان، موریطانیہ، مالی، مراکش، سینیگال، اومان، قطر اور کرغیزستان شامل ہیں۔ یہ سارے ملک اور ان کے تاجر اسرائیل سے براہ راست یا بالواسطہ تجارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ درمیانی کمپنیوں کے ذریعے مال منگاتے ہیں اور بہت سی اسرائیلی اشیا خریدنے کے شدید خواہشمند ہیں۔ ان ملکوں کے تاجر عالمی تجارتی نمائشوں میں شرکت کرتے ہیں اور وہاں آنے والے اسرائیلی تاجروں سے کاروباری بات چیت کر کے معاملات طے کرتے ہیں۔ جن ملکوں کے سفارتی تعلقات اسرائیل سے نہیں، ان کے تاجر بعض دوسرے ملکوں میں قائم کمپنیوں کے توسط سے مال فروخت کرتے ہیں۔ اور انہی کے توسط سے رقم وصول کرتے ہیں۔ یہ کمپنیاں زیادہ تر اسرائیلی، امریکی یا یورپی باشندوں کی ملکیت ہوتی ہیں یا پھر افریقہ اور ایشیا کے بعض دور دراز ملکوں کے باشندوں کی۔ اسرائیل کی مضبوط معاشی حالت کے پیش نظریہ مان لیتے ہیں کہ مسلمان ملک اس سے تجارتی تعلقات ختم کر بھی لیں تو اس سے اسرائیل کی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ نہ پڑے لیکن عالم اسلام پر ضرور پڑے گا اور ساری دنیا کو واضح پیغام جائے گا کہ مسلمان اسرائیل کی بربریت برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ خود مسلمانوں میں ایک نیا جوش جذبہ اور حوصلہ پیدا ہو گا۔ چلیں آپ اس سے لڑ نہیں سکتے، مگر اپنی نا پسندیدگی اور نفرت کا عملی اظہار تو کر سکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں اسرائیل کی طاقت کا راز تین چیزوں میں ہے: آئیڈیالوجی، اکانومی اور امریکہ۔ اسرائیل دنیا کے دو نظریاتی ملکوں میں سے ایک ہے۔ دوسرا ملک پاکستان ہے۔ نظریاتی ہونے کے ناطے اسرائیل کی طے شدہ پالیسی ہے کہ دنیا کا ہر یہودی اسرائیلی شہری ہے اور اسرائیل اس کے حقوق۔ مفادات اور جان مال کا پاسبان ہے۔ اسی لئے دنیا کے ہر خطے میں آباد یہودیوں کیلئے اسرائیل کی سرحدیں اور شہریت کھلی ہوئی ہے۔ اس چیز نے اسرائیل کو دنیا بھر کے یہودیوں کی طاقت مہیا کی ہے۔ سیاسی، معاشی اور افرادی طاقت۔ دوسری چیز اکانومی ہے۔ اسرائیل کی کل آبادی 80 لاکھ ہے۔ یعنی ایک کروڑ سے بھی کم۔ لیکن اس کی برآمدات یعنی ایکسپورٹ سال 2013ء میں 95 ارب ڈالر تھی۔ جی ہاں۔ 95 ارب ڈالر۔ جبکہ 1948ء میں اس کی برآمدات 60 لاکھ ڈالر تھیں۔ ان 65 برسوں میں اسرائیل نے اپنی برآمدات کو 16 ہزار گنا بڑھایا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی 20کروڑ ہے۔ لیکن 2013ء میں پاکستان کی کل برآمدات 25 اعشاریہ صفر پانچ ارب ڈالر تھیں۔ گویا اسرائیل سے تقریباً چار گنا کم۔ اب تو خیر سے دس ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔
ضیاء چترالی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں