بھارت کی آزادی کے پچہترویں برس کی خوشی اور عوام کا درد
بھارت کی آزادی کو پچھتر برس مکمل ہونے میں چند دن ہی رہ گئے ہیں ۔پورے ملک میں خوشی و انبساط کی لہر ہے وزیراعظم کے فرمان پر ہر "گھر ترنگا" کی تحریک بھی زور و شور سے فعال ہے ۔اور کیوں نہ ہو ؟ ترنگا ہماری آن ہے ,ترنگا ہماری شان ہے اور ترنگا ہمارے ملک بھارت کی آزادی کی ،خومختاری کی پہچان ہے ۔ مگر افسوس اس بات کا ہے ملک کے ہزاروں نو جوان و نونہال پچھلے دو ماہ سے بغیر کسی کے جرم کے جیلوں میں بند ہیں نہ وکیل کی وکالت کام آرہی ہے نہ جج کی منصفی نہ قانون ان ماؤں کے آنسو پونچھ رہا ہے جن کے فرزند دس جون 2022 سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں ۔ وہ مائیں آزادی کا امرت مہوتسو کیسے منائیں؟ وہ بہنیں آزادی کے امرت مہوتسو کی خو شیا ں کیسے محسوس کریں؟ اس صحافی کا خاندان بھارت کی آزادی کے امرت مہوتسو کی خوشیاں کیسے مناۓ جس خاندان کا نوجوان بیٹا، بھائ ،شوہر ،باپ پچھلے ڈھائ برسوں سے بغیر جرم کے قید کی سزا کاٹ رہا ہو؟ یہ ایک ایسے مظلوم صحافی کی دردناک داستان ہے جو پچھلے ڈھائ برس سے یو پی حکومت کے ظلم وستم کی منہ بولتی تصویر بنا ہوا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی یں؟ ہم آزادی کی خو شیا ں کیسے منائیں؟ الہ باد کی ہو نہار اور بہادر آفرین فاطمہ اس کی والدہ اور بہن یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہم کس گھر کی چھت پر ترنگا لہرائیں وزیر اعظم صاحب؟ ہمارا گھر تو بلڈوز کر دیا گیا۔ ہمارے پاس تو گھر ہی نہیں ہے ۔ الہ باد کے شاہ گنج محلے میں رہنے والی ایک غریب اور مجبور عورت جس کا شوہر سات برسوں سے نابینا ہے ۔ جو سلائ کر کے اپنے گھر والوں کی ضروریات اور دو وقت کی روٹی بہت مشکل سے مہیا کر پاتی ہے اس غریب کا جوان بیٹا جو گھر سے نکلتے ہی بغیر کسی جرم بغیر ثبوت سڑک پر دبوچ لیا گیا اور آج تک نینی جیل میں قید ہے ضمانت کی عارضی تک منظور نہیں ہو رہی ہے اور اس کے جیسے جانے کتنے معصوم جیل میں بند ہیں ۔نہ عرضی نہ تاریخ نہ سنوائ نہ ضمانت نہ رہائ وہ مائیں پوچھ رہی ہیں کہ وزیر اعظم صاحب ہم آزادی کی کس خوشی میں ترنگا لہرائیں ؟ ہمارے فرزندان تو قید ہیں خدارا ان معصوم نوجوانوں کا آزاد کریں ؟ ان کے اوپر لگاۓ گئے تمام جھوٹے اور بے بنیاد الزامات سے باعزت بری کیجئے ان کے کرئیر اور زندگی پر لگے داغ کو مٹائیں۔ تاکہ ہم بھی آزادی کے امرت مہوتسو کی خوشیاں محسوس کر سکیں ۔ ترنگا تو ہماری شان ہے مگر بیٹوں اور بھائیوں کے بغیر گھر سنسان ہے۔
کیا انگریزی حکومت کے ظلم اور موجودہ حکومت کے ظلم میں کچھ فرق ہے ؟ واقعئ کیا ہم آزاد ہیں؟
دو سو سال انگریزوں کی غلامی میں بے بسی کی زندگی جیتے ہوے اپنے ملک ہندوستان کے لاکھوں لوگ ہندو ،مسلم، سکھ ، اور خواتین سب نے انگریزوں کے خلاف ہمت کی اور بغاوت کا بگل بجایا، جتنی طویل ہماری غلامی کی داستان ہے اتنی کی لمبی ہماری آزادی کی تاریخ بھی ہے سب سے پہلے 1857 میں انگریزوں کے خلاف بھارت کے صوبہ اتر پردیش کے شہر میرٹھ سے آزادی کے انقلاب کی لہر اٹھی اسی لئے میرٹھ کو شہر انقلاب بھی کہا جاتا ہے ۔میرٹھ انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگ آزادی کی پہلی آواز تھاجہاں سے ۱۰ مئی ۱۸۵۷ء کو جدو جہد آزادی کے لئے جنگ کا آغاز ہوا اور تحریک آزادی کی پہلی کرن پھوٹی۔میرٹھ کے جوانوں نے ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اور صدائے احتجاج بلند کی۔یہ وہ تاریخی جدوجہد ہے جسے اُس وقت غدر کا نام دیا گیاتھااور اب جنگ آزادی کہا جاتا ہے۔میرٹھ سے ہی معروف رہنما سبھاش چندر بوس کو آزاد ہند فوج کے لئے سر فروش مجاہد دستیاب ہوئے۔ اسی شہر کے بہادر جنرل شاہ نواز نے کورٹ مارشل کی کاروائی کے دوران لال قلع کے ایوان میں اپنے نعرہ حق سے لرزاں پیدا کیا تھا۔
اگر بھارت کے پرچم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جاے تو بھارت کے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بھارت کا یہ ترنگا جو ہر بھارتی عوام کی آن بان شان ہے اس کی تخلیق کس کے ہاتھوں ہوئ ؟ وطنِ عزیز کے قومی پرچم کا ڈیزائن کس نے تیار کیا؟
جہاں تک ہمارے وطن عزیز کے قومی پرچم کا سوال ہے اس کا ڈیزائن کسی پنگالی وینکیا یا اینی سینٹ نے تیار نہیں کیا بلکہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک تعلیم یافتہ خاتون اور بدر الدین طیب جی آئی سی ایس کی اہلیہ محترمہ ثریا طیب جی نے تیار کیا تھا وہ حیدرآباد دکن کی ممتاز شخصیت سر اکبر حیدری کے خاندان سے تعلق ر کھتی تھیں ۔ محترمہ ثریا طیب جی نے جہاں ملک کی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں اپنی پینٹنگز کے ذریعہ لوگوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرتی رہیں ۔ وہ ایک بہت اچھی مصور بھی تھیں ۔ 22 جولائی 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں جس کمیٹی نے قومی پرچم پیش کیا وہ 74 خاتون ارکان پر ہی مشتمل تھی جن میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو ، زہرہ انصاری ، زرینہ کریم بھائی ، سکینہ نعمانی ، قدسیہ، عزیز رسول ، شریفہ حامد علی ، عائشہ احمد ، اندرا گاندھی اور خود ثریا طیب جی جیسی خواتین شامل تھیں ۔ یہ اور بات ہے کہ 1921 میں پنگالی وینکیا کی جانب سے قومی پرچم کا جو ڈیزائن پیش کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں وہ موجودہ قومی پرچم سے بالکل مختلف تھا ۔ واضح رہے کہ ثریا طیب جی نے 1916 میں مہاتما گاندھی کو قومی ترنگے کے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 30 ڈیزائن پیش کئے تھے اور بالاخر ان کے تیار کردہ ڈیزائن کو ہی منظور کیا گیا اور آج 15 اگست ہو یا 26 جنوری لال قلعہ راشٹرپتی بھون ، سرکاری دفاتر کی عمارتوں ، اسکولوں ، کالجوں اور گلی گلی میں ثریا طیب جی کا ڈیزائن کیا ہوا ترنگا ہی پھہرایا جاتا ہے ۔ مگر ثریا طیب جی بھارت رتن جیسے اعزاز سے محروم ہیں ؟افسوس کہ متعصب ذہنوں نے جن کے دل فرقہ پرستی سے زنگ آلودہ ہیں مسلمانوں کے کارناموں اور ان کی قربانیوں و کاوشوں کو جان بوجھ کر قوم کی نظروں سے دور کردیا تاکہ انہیں سیاسی مفادات کی تکمیل میں آسانی ہو ۔ آج ہم ہندوستانی بڑے فخر سے" جئے ہند" کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن بہت کم ہندوستانیوں کو معلوم ہے کہ ساری قوم کو" جے ہند " نعرہ کا تحفہ دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ حیدرآباد کے ایک معزز خاندان سے تعلق ر کھنے والے انجینئر ابوالحسن صغرانی زین العابدین ابوالحسن تھے ۔ گرامر اسکول حیدرآباد کے اس طالب علم کو سبھاش چندر بوس کے ساتھ رہنے کا بھی اعزاز حاصل رہا ۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی خواہش پر ہی انہوں نے"جئے ہند" کا نعرہ تحریر کیا تھا ۔ اسی طرح حیدرآباد کے مولوی علاء الدین جنہیں کالے پانی کی سزا پانے والے پہلے ہندوستانی مجاہد آزادی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ انہیں بھی صرف اور صرف اس لیے فراموش کردیا گیا کیوں کہ وہ مسلمان تھے ۔ مولوی علاء الدین کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہیں موت کے بعد ہی کالے پانی کی سزا سے راحت ملی ۔ کاش حکومت بھارت رتن ایوارڈس ان غیر معمولی مسلم شخصیتوں کو دینے کا اعلان کرتی تو کتنا اچھا ہوتا ۔
اس سال آزادی کے پچہتر سال مکمل ہونے کی خوشی میں وزیر اعظم محترم نریندر مودی نے اپنے پرگرام" من کی بات " میں بھارت کی عوام سے" ہر گھر ترنگا " کی اپیل کی ہے ۔ قومی پرچم ترنگا کو لال قلعے پر پہرانے والے پہلے انسان جنرل شاہنواز خان ۔ یہ نام ہندوستانی جنگ آزادی میں سنہرے حرفوں سے لکھا جانا چاہئے ۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کے’ سپہ سالار ‘ جنرل شاہنواز خان کی قربانیاں اور کارنامے آج بھی قوم کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔ حب الوطنی اور قوم پرستی کی علامت رہے جنرل شاہنواز خان اہم بات یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں لال قلعہ پر برطانوی حکومت کا پرچم اتار کر ترنگا لہرانے والے جنرل شاہنواز خان ہی تھے ۔جہاں آزادی کے بعد سے ابتک ترنگا لہرا رہا ہے ۔ہر سال یوم آزادی کے موقع پر ملک کے وزیر اعظم اسی لال قلعہ سے ترنگا لہراتے ہیں
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہندوستان سے مسلمان پاکستان جا رہے تھے تب وہ پاکستان میں اپنے پورے خاندان کو چھوڑ کر ہندوستان آ گئے تھے۔ ان کے خاندان سے وابستہ لوگ آج بھی پاکستانی فوج میں اونچے عہدوں پر ہیں۔ مگر یہ ہندوستان سے محبت تھی اور ہندو مسلم اتحاد کا یقین تھا جس کے سبب وہ آزاد ہند فوج میں سبھاش چندر بوس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑے۔
''انقلاب زندہ باد'' کا نعرہ دینے والا شخص اردو ادب کا ایک مشہور شاعر ، سیاست داں، اور صحافی ، مولانا حسرت موہانی ایک آزادی پسند مجاہد کا نام ہے، جس نے ہندو، مسلم اور سکھ برادریوں کے ساتھ مل کر ہندوستان کو مکمل آزادی دلانے کے لیے ہر چیز کی قربانی دی ۔اُنہوں نے جذبۂ آزادی کے فروغ کے لیے اپنا کیریئر، جائیداد اور اپنے گھروں کو داؤں پر لگا دیا۔ آزادی پسند مجاہد اور ملک سے محبت کرنے والے شہیدانِ وطن کی وجہ سے، آج ہم اس ملک میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔وہ حسرت ماہانہ ہی تھے جس نے ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی کا احساس اور جزبہ پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے''انقلاب زندہ باد'' اور ''مکمل آزادی'' کا نعرہ دیا۔ برطانوی حکومت نے اُنہیں کئی مرتبہ جیل میں قید کر کے رکھا ۔ کیا انگریزی حکومت کے ظلم اور موجودہ حکومت کے ظلم میں کچھ فرق ہے ؟
کیا انگریزی حکومت کے ظلم اور موجودہ حکومت کے ظلم میں کچھ فرق ہے ؟ واقعئ کیا ہم آزاد ہیں؟
دو سو سال انگریزوں کی غلامی میں بے بسی کی زندگی جیتے ہوے اپنے ملک ہندوستان کے لاکھوں لوگ ہندو ،مسلم، سکھ ، اور خواتین سب نے انگریزوں کے خلاف ہمت کی اور بغاوت کا بگل بجایا، جتنی طویل ہماری غلامی کی داستان ہے اتنی کی لمبی ہماری آزادی کی تاریخ بھی ہے سب سے پہلے 1857 میں انگریزوں کے خلاف بھارت کے صوبہ اتر پردیش کے شہر میرٹھ سے آزادی کے انقلاب کی لہر اٹھی اسی لئے میرٹھ کو شہر انقلاب بھی کہا جاتا ہے ۔میرٹھ انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگ آزادی کی پہلی آواز تھاجہاں سے ۱۰ مئی ۱۸۵۷ء کو جدو جہد آزادی کے لئے جنگ کا آغاز ہوا اور تحریک آزادی کی پہلی کرن پھوٹی۔میرٹھ کے جوانوں نے ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اور صدائے احتجاج بلند کی۔یہ وہ تاریخی جدوجہد ہے جسے اُس وقت غدر کا نام دیا گیاتھااور اب جنگ آزادی کہا جاتا ہے۔میرٹھ سے ہی معروف رہنما سبھاش چندر بوس کو آزاد ہند فوج کے لئے سر فروش مجاہد دستیاب ہوئے۔ اسی شہر کے بہادر جنرل شاہ نواز نے کورٹ مارشل کی کاروائی کے دوران لال قلع کے ایوان میں اپنے نعرہ حق سے لرزاں پیدا کیا تھا۔
اگر بھارت کے پرچم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جاے تو بھارت کے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بھارت کا یہ ترنگا جو ہر بھارتی عوام کی آن بان شان ہے اس کی تخلیق کس کے ہاتھوں ہوئ ؟ وطنِ عزیز کے قومی پرچم کا ڈیزائن کس نے تیار کیا؟
جہاں تک ہمارے وطن عزیز کے قومی پرچم کا سوال ہے اس کا ڈیزائن کسی پنگالی وینکیا یا اینی سینٹ نے تیار نہیں کیا بلکہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک تعلیم یافتہ خاتون اور بدر الدین طیب جی آئی سی ایس کی اہلیہ محترمہ ثریا طیب جی نے تیار کیا تھا وہ حیدرآباد دکن کی ممتاز شخصیت سر اکبر حیدری کے خاندان سے تعلق ر کھتی تھیں ۔ محترمہ ثریا طیب جی نے جہاں ملک کی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں اپنی پینٹنگز کے ذریعہ لوگوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرتی رہیں ۔ وہ ایک بہت اچھی مصور بھی تھیں ۔ 22 جولائی 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں جس کمیٹی نے قومی پرچم پیش کیا وہ 74 خاتون ارکان پر ہی مشتمل تھی جن میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو ، زہرہ انصاری ، زرینہ کریم بھائی ، سکینہ نعمانی ، قدسیہ، عزیز رسول ، شریفہ حامد علی ، عائشہ احمد ، اندرا گاندھی اور خود ثریا طیب جی جیسی خواتین شامل تھیں ۔ یہ اور بات ہے کہ 1921 میں پنگالی وینکیا کی جانب سے قومی پرچم کا جو ڈیزائن پیش کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں وہ موجودہ قومی پرچم سے بالکل مختلف تھا ۔ واضح رہے کہ ثریا طیب جی نے 1916 میں مہاتما گاندھی کو قومی ترنگے کے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 30 ڈیزائن پیش کئے تھے اور بالاخر ان کے تیار کردہ ڈیزائن کو ہی منظور کیا گیا اور آج 15 اگست ہو یا 26 جنوری لال قلعہ راشٹرپتی بھون ، سرکاری دفاتر کی عمارتوں ، اسکولوں ، کالجوں اور گلی گلی میں ثریا طیب جی کا ڈیزائن کیا ہوا ترنگا ہی پھہرایا جاتا ہے ۔ مگر ثریا طیب جی بھارت رتن جیسے اعزاز سے محروم ہیں ؟افسوس کہ متعصب ذہنوں نے جن کے دل فرقہ پرستی سے زنگ آلودہ ہیں مسلمانوں کے کارناموں اور ان کی قربانیوں و کاوشوں کو جان بوجھ کر قوم کی نظروں سے دور کردیا تاکہ انہیں سیاسی مفادات کی تکمیل میں آسانی ہو ۔ آج ہم ہندوستانی بڑے فخر سے" جئے ہند" کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن بہت کم ہندوستانیوں کو معلوم ہے کہ ساری قوم کو" جے ہند " نعرہ کا تحفہ دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ حیدرآباد کے ایک معزز خاندان سے تعلق ر کھنے والے انجینئر ابوالحسن صغرانی زین العابدین ابوالحسن تھے ۔ گرامر اسکول حیدرآباد کے اس طالب علم کو سبھاش چندر بوس کے ساتھ رہنے کا بھی اعزاز حاصل رہا ۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی خواہش پر ہی انہوں نے"جئے ہند" کا نعرہ تحریر کیا تھا ۔ اسی طرح حیدرآباد کے مولوی علاء الدین جنہیں کالے پانی کی سزا پانے والے پہلے ہندوستانی مجاہد آزادی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ انہیں بھی صرف اور صرف اس لیے فراموش کردیا گیا کیوں کہ وہ مسلمان تھے ۔ مولوی علاء الدین کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہیں موت کے بعد ہی کالے پانی کی سزا سے راحت ملی ۔ کاش حکومت بھارت رتن ایوارڈس ان غیر معمولی مسلم شخصیتوں کو دینے کا اعلان کرتی تو کتنا اچھا ہوتا ۔
اس سال آزادی کے پچہتر سال مکمل ہونے کی خوشی میں وزیر اعظم محترم نریندر مودی نے اپنے پرگرام" من کی بات " میں بھارت کی عوام سے" ہر گھر ترنگا " کی اپیل کی ہے ۔ قومی پرچم ترنگا کو لال قلعے پر پہرانے والے پہلے انسان جنرل شاہنواز خان ۔ یہ نام ہندوستانی جنگ آزادی میں سنہرے حرفوں سے لکھا جانا چاہئے ۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کے’ سپہ سالار ‘ جنرل شاہنواز خان کی قربانیاں اور کارنامے آج بھی قوم کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔ حب الوطنی اور قوم پرستی کی علامت رہے جنرل شاہنواز خان اہم بات یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں لال قلعہ پر برطانوی حکومت کا پرچم اتار کر ترنگا لہرانے والے جنرل شاہنواز خان ہی تھے ۔جہاں آزادی کے بعد سے ابتک ترنگا لہرا رہا ہے ۔ہر سال یوم آزادی کے موقع پر ملک کے وزیر اعظم اسی لال قلعہ سے ترنگا لہراتے ہیں
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہندوستان سے مسلمان پاکستان جا رہے تھے تب وہ پاکستان میں اپنے پورے خاندان کو چھوڑ کر ہندوستان آ گئے تھے۔ ان کے خاندان سے وابستہ لوگ آج بھی پاکستانی فوج میں اونچے عہدوں پر ہیں۔ مگر یہ ہندوستان سے محبت تھی اور ہندو مسلم اتحاد کا یقین تھا جس کے سبب وہ آزاد ہند فوج میں سبھاش چندر بوس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑے۔
''انقلاب زندہ باد'' کا نعرہ دینے والا شخص اردو ادب کا ایک مشہور شاعر ، سیاست داں، اور صحافی ، مولانا حسرت موہانی ایک آزادی پسند مجاہد کا نام ہے، جس نے ہندو، مسلم اور سکھ برادریوں کے ساتھ مل کر ہندوستان کو مکمل آزادی دلانے کے لیے ہر چیز کی قربانی دی ۔اُنہوں نے جذبۂ آزادی کے فروغ کے لیے اپنا کیریئر، جائیداد اور اپنے گھروں کو داؤں پر لگا دیا۔ آزادی پسند مجاہد اور ملک سے محبت کرنے والے شہیدانِ وطن کی وجہ سے، آج ہم اس ملک میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔وہ حسرت ماہانہ ہی تھے جس نے ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی کا احساس اور جزبہ پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے''انقلاب زندہ باد'' اور ''مکمل آزادی'' کا نعرہ دیا۔ برطانوی حکومت نے اُنہیں کئی مرتبہ جیل میں قید کر کے رکھا ۔ کیا انگریزی حکومت کے ظلم اور موجودہ حکومت کے ظلم میں کچھ فرق ہے ؟
واقعی کیا ہم آزاد ہیں؟


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں