مہاراشٹر میں چل رہے سیاسی گھمسان کا پل پل بدلتا منظرنامہ :
مہاراشٹر میں بال ٹھاکرے کی وراثت پر بی جے پی کی نظر، کیا راج ٹھاکرے کو مضبوط کرکے ادھو کو شیوسینا سے بے دخل کیا جائے گا؟؟؟
مہاراشٹر میں ہر پل سیاسی منظر بدل رہا ہے. اس سیاسی گھمسان میں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے ہر اوچھی حرکت کے لئے خود کو تیار رکھ رہی ہیں. ادھو ٹھاکرے سے اقتدار چھیننے کے بعد بی جے پی اب شیوشینا بھی دستبردار کرنا چاہتی ہیں. جس کے لئے بی جے پی کی کوششیں جاری ہیں. بی جے پی مہاراشٹر کی سیاست میں بال ٹھاکرے کی وراثت پر شیوسینا میں ہنگامہ آرائی کرکے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ساتھ ایم این ایس لیڈر راج ٹھاکرے کو بھی مضبوط کر رہی ہے۔ اس سے ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا مزید کمزور ہو جائے گی اور ساتھ ہی راج ٹھاکرے کے ذریعے بال ٹھاکرے کی وراثت ادھو کے ہاتھوں سے نکالا جاسکتا ہے۔
نائب وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر دیویندر فڈنویس کی ممبئی میں راج ٹھاکرے سے ملاقات کو لے کر کافی اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ ان کے بیٹے امیت ٹھاکرے کو وزیر بنانے کی بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ تاہم راج ٹھاکرے نے خود اس کی تردید کی ہے۔
ذرائع کے مطابق بی جے پی راج ٹھاکرے کے اکلوتے ایم ایل اے کو وزیر بنا سکتی ہے۔ اس کا امکان بھی بہت کم ہے۔ اس کے بجائے بی جے پی راج ٹھاکرے کو مزید طاقت دے کر بی ایم سی انتخابات اور تھانے کے علاقے میں ادھو ٹھاکرے کو مزید کمزور کرے گی۔ راج ٹھاکرے کو بھی اپنی پارٹی کی سیاسی حیثیت کے لیے اس وقت حکومت کے تعاون کی ضرورت ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے ادھو ٹھاکرے کے کیمپ سے مراٹھا حامیوں اور ووٹروں کی اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ باقی کام راج ٹھاکرے کی ایم این ایس کر سکتی ہے۔ ایسے میں بی جے پی اور راج ٹھاکرے کی قربت حکومت بنانے کے بجائے آنے والے انتخابات کے لیے زیادہ اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ صدارتی انتخاب کے بعد مہاراشٹر کابینہ میں توسیع کا امکان ہے۔ ایسے میں بی جے پی شیوسینا کے ایکناتھ شندے گروپ اور دیگر چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں میں سے کس کو وزیر بنانا ہے، اس کا فیصلہ بی جے پی کی مرکزی قیادت کرے گی۔
امیت ٹھاکرے نے جنوری 2020 میں سیاست میں قدم رکھا۔ اس سال پہلی بار 30 سالہ امیت کو ایک بڑی ذمہ داری سونپتے ہوئے مہاراشٹر نو نرمان سینا کی طلبہ تنظیم کا صدر مقرر کیا گیا۔ پارٹی امیت ٹھاکرے کو بھی آدتیہ ٹھاکرے کی طرز پر پیش کرنا چاہتی ہے۔
آدتیہ ٹھاکرے نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز شیوسینا کی طلبہ تنظیم کے صدر کے عہدے سے کیا تھا۔ جب امیت کو طلبہ تنظیم کی کمان سونپی گئی، اس وقت ایم این ایس کے طلبہ اور نوجوان تنظیموں کے کئی لیڈر پارٹی چھوڑ کر شیوسینا میں شامل ہو گئے تھے۔ اسے روکنے اور مراٹھی نوجوانوں کو ایم این ایس کی طرف راغب کرنے کے لیے امیت ٹھاکرے کو ایک بڑی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں