src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> اتر پردیش بلڈوزر کاروائی معاملہ: یو پی حکومت نے جمعیۃ علماء ہندکی عرض داشت پر بحث کرنے کی بجائے جوابی حلف نامہ پر جواب داخل کرنے کے لئے عدالت سے وقت طلب کیا - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 29 جون، 2022

اتر پردیش بلڈوزر کاروائی معاملہ: یو پی حکومت نے جمعیۃ علماء ہندکی عرض داشت پر بحث کرنے کی بجائے جوابی حلف نامہ پر جواب داخل کرنے کے لئے عدالت سے وقت طلب کیا




اتر پردیش بلڈوزر کاروائی معاملہ



یو پی حکومت نے جمعیۃ علماء ہندکی عرض داشت پر بحث کرنے کی بجائے جوابی حلف نامہ پر جواب داخل کرنے کے لئے عدالت سے وقت طلب کیا 





نئی دہلی 29/ جون : یوپی کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی املاک کی بلڈوزر کے ذریعہ غیر قانونی انہدامی کاروائی کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران یو پی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے  جمعیۃ علماء ہند کے جواب پر بحث کرنے کے بجائے عدالت سے درخواست کی کہ جمعیۃ علماء ہندنے اپنے جوابی حلف نامہ میں جو باتیں اٹھائی ہیں، ہمیں ان کی وضاحت کے لئے مہلت دی جائے۔

سالیسٹر جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ جوابی حلف نامہ میں کچھ نئی باتیں کہی گئیں ہیں جس کا یو پی حکومت جواب دینا چاہتی ہے، انہوں نے عدالت کو مزیدکہاکہ جوابی حلف نامہ میں کچھ نئے انکشافات کئے گئے جس پر صفائی دینا ضروری ہے لہذا عدالت انہیں دو ہفتوں کا وقت دے،۔سپریم کورٹ کی تعطیلاتی بینچ کے جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا نے یوپی حکومت کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی۔اب اس مقدمہ کی اگلی سماعت 13/جولائی کو ہوگی۔

آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ، سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن، ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ نظام الدین پاشا، ایڈوکیٹ شاہد ندیم و دیگر پیش ہوئے۔
واضح رہے کہ گذشتہ کل جمعیۃ علماء ہند نے یو پی حکومت کی جانب سے داخل حلف نامہ کے جواب میں جوجوابی حلف نامہ عدالت میں داخل کیا تھا اورجس میں تحریر ہے کہ چیف منسٹر یوپی یوگی ادتیہ ناتھ،وزراء اور اعلی پولس افسران کی جانب سے عوامی بیانات میں احتجاج کرنے والوں کے متعلق کہا گیا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو ایسا سبق سکھایا جائے گا جو دوسروں کے لئے مثال بنے گا،اس پر ایک لفظ تک نہیں کہا گیا ہے اور نہ ہی سہارنپور میں مسلمانوں کی املاک پر چلے بلڈوزر کا ذکر ہے۔

نیزالہ آباد میں محمد جاوید کا جو مکان منہدم کیا گیا اس تعلق سے بھی حقیقت بیانی نہیں کی گئی ہے،مکان جب جاوید کی اہلیہ کے نام پر تھا تو انہدامی کارروائی سے ایک شب قبل جاوید کے نام سے مکان پر نوٹس چسپا کرکے جانے کا کیا مطلب؟ یوپی کے مختلف شہروں میں انہدامی کاروائی انجام دی گئی جبکہ حلف نامہ میں صرف تین جگہوں کا ہی ذکر کیا گیاجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یو پی حکومت عدالت سے حقائق کو چھپانا چاہتی ہے۔

 جوابی حلف نامہ میں مزید لکھا گیا ہیکہ احتجاج کے بعد ہی کیوں بلڈوزر کی کارروائی شروع کی گئی نیز سپریم کورٹ کی گائڈلائنس کو بالائے طاق رکھ کر ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں کے مکانات مہندم کیئے گئے حالانکہ اگر تجاؤزات ہٹانا ہی مقصد ہے تو بلا تفریق مذہب کیا جانا چاہئے اور وہ قانون کے مطابق بھی ہو۔

جوابی حلف نامہ میں مزید تحریر کیا گیا ہیکہ دہلی، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ، یو پی ریاستوں میں یکے بعد دیگرے غیر قانونی بلڈوزر کاررائی انجام دی گئی جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے نیز جن لوگوں کے مکانات کو نقصان پہنچایا گیا ہے و ہ ذاتی طور پر بھی ہائی کور ٹ سے رجوع ہوئے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages