src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> پیلس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں کی جمعیۃ علماء ہند سپریم کورٹ میں مخالفت کریگی - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 5 جون، 2022

پیلس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں کی جمعیۃ علماء ہند سپریم کورٹ میں مخالفت کریگی



  پیلس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں کی جمعیۃ علماء ہند سپریم کورٹ میں مخالفت کریگی    

                                                    

  اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک بار پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، گلزار اعظمی




نئی دہلی 5/ جون2022 : گیان واپی مسجد مقدمہ ایک جانب جہاں ورانسی کی ضلعی عدالت میں چل رہا ہے وہیں سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی ایک سے زائد ایسی عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں جو پلیس آف ورشپ قانون کو غیر آئینی قرار دینے کی عدالت سے گذارش کررہی ہیں۔ سال 2020 میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں پلیس آف ورشپ قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ) نامی شخص نے داخل کی تھی جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 1246/2020ہے۔


متذکرہ پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیئے جمعیۃ علماء ہند نے بذریعہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول مداخلت کار کی عرضداشت سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کردی ہے، گرمیوں کی تعطیلات کے بعد اس پٹیشن پر سماعت متوقع ہے۔

اس ضمن میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق15،اگست  1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔


گلزار اعظمی نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل مداخلت کار کی پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ  بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔


پٹیشن میں مزید درج کیاگیاہے کہ پلیس آف ورشپ قانونی 1991 نافذکرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947  کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھااور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔
عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے(پیرگراف 99، صفحہ 250)نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔


عرضداشت میں مزیدکہاگیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری لیگی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔


واضح رہے کہ اس قبل بھی ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پٹیشن داخل کی گئی ہے جس میں انہوں نے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ اس پٹیشن پر 10/ جولائی 2020 کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی تھی، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول و دیگر پیش ہوئے تھے۔متذکرہ دونوں مداخلت کار کی عرضداشتوں میں گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages