جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے کھرگون کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا
صدام کی ماں کو ایک لاکھ اور بیوہ کو چار لاکھ روپے کا امدادی چیک پیش کیاگیا۔
اگرسرکار ہی عدالت ہے تو پھر یہ عدالتیں کیوں؟ : مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی یکم؍مئی 2022: جمعیۃ علماء ہندکو ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم اسی لئے کہاجاتاہے کہ یہ ہردکھ کی گھڑی میں مذہب سے اوپراٹھ کر تمام مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ کھڑی نظرآتی ہے ، گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے کھرگون شہرمیں منصوبہ بندطریقہ سے مسلمانوں پر جس طرح ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے اور قانونی کاروائی کا نام دیکر جس طرح یکطرفہ طور پر بے بس و مظلوم مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کیا گیا، اس کی مکمل تفصیل اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آچکی ہے ، گھروں اور دکانوں کو اس طرح مسمار کئے جانے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے پورے ملک کے مظلوموں کو انصاف دلانے اور آئین و جمہوریت کو بچانے اور قانون و دستور کی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرچکی ہے ، جس پر 9 مئی کو دوبارہ سماعت متوقع ہے ، مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند کے ایک نمائندہ وفد نے ناظم عمومی مفتی معصوم ثاقب کی سربراہی میں حقائق کا پتہ لگانے کے لئے کھرگون کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا ہے ، متاثرین اور دیگر مقامی افراد سے گفتگو کے بعد یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ ابتداء میں رام نومی کے جلوس کے راستہ اور وقت کو لیکر انتظامیہ اور جلوس کے ذمہ داروں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا حالانکہ جلوس کے لئے راستہ اور وقت کا تعین کردیا گیا تھا ، لیکن اکثریتی فرقہ کے لوگ مسلم اکثریتی علاقوں سے جلوس نکالنے پر بضد تھے، اس کو لیکر کافی دیر تک انتظامیہ اور جلوس کے ذمہ داران میں نوک جھونک ہوتی رہی، جس کے نتیجہ میں پولس کو لاٹھی چارج بھی کرنا پڑا، اسی درمیان کسی نے جلوس پر پتھر پھینک دیا، معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ کے تحت ہوا ، اس معمولی واقعہ کو بہانا بناکر جلوس میں شامل لوگوں نے مسلم علاقوں پر حملہ کردیا اور دہلی میں دو سال قبل ہوئے فساد کی طرز پر مسلمانوں کی دکانوں کو لو مٹنااور جلانا شروع کردیا، ایک شخص ایریز عرف صدام کو بری طرح زدوکوب کرکے مار ڈالا گیا،اور کرفیو نافذ ہونے کے بعد بھی لوٹ مار اور آتش زنی کا سلسلہ جاری رہا ، ایک مسجد میں جبرا مورتی بھی رکھ دی گئی ، انتظامیہ جب حرکت میں آئی تو اس نے وہی کیا جو ہر فساد کے موقع پر ہوتا رہا ہے ، یعنی فساد کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں کے سر مونڈھ دی گئی اور بے قصور مسلمانوں کی اندھا دھند گرفتاریاں شروع ہوگئیں ، کل 185 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد 175 ہے ، مسلم محروسین کو تھانوں میں زدوکوب کرنے کی شکایتیں بھی وفد کو ملیں ، وفد نے صدام کے لواحقین سے ملاقات کی اورجمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اس کی والدہ کو ایک لاکھ اور بیوہ کو چار لاکھ روپے کا امدادی چیک بھی پیش کیا ، یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ جمعیۃ علماء ہند صدام مرحوم کے یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم کے سلسلہ میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گی ۔ وفد نے تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا البتہ بعض علاقوں میں موجود کشیدگی کے پیش نظر مقامی افراد نے وفد کو وہاں کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا، وفد نے شدت سے محسوس کیا کہ اکثریت علاقوں میں اب بھی خوف و دہشت کا ماحول ہے، تمام عبادت گاہیں مکمل طور پر بند ہیں ، مسلمان گھروں پر ہی نماز ادا کر رہے ہیں ، شام 5 بجے سے صبح 8 بجے تک کا کرفیو اب بھی جاری ہے ، لیکن رمضان کے آخری جمعہ کے روز یہ نظام بدل دیا گیا، انتظامیہ نے دوپہر12 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک کرفیو نافذ کردیا تاکہ مسلمان جمعہ کی نماز مسجدوں میں ادا نہ کرسکیں، تجاوزات کے نام پر ریاستی حکومت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ نے جو کاروائی کی ہے وہ تعصب اور امتیاز کا منہ بولتا ثبوت ہے ، انتالیس دکانوں اور مکانوں کو مسمار کیا گیا ہے جن میں دو مسجدوں کے ملحق دکانیں بھی شامل ہیں، یہ تمام دکانیں بغیر نوٹس کے مسمار کردی گئیں ۔جن میں 9 دکانیں اور مکانات ایسے ہیں جن کے پاس مکمل قانونی دستاویزات موجود ہیں ۔ بلا کسی وجہ کے صرف اور صرف تعصب کی بنیاد پر منہدم کردیا گیا ۔جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں: (1) امجد خان ولد کلو خان (2)امجد پٹیل ولد رشید پٹیل (3) زاہد علی ولد منیر علی (4) رشید خان ولد رحیم خان (5) عتیق علی ولد مشتاق علی(6) علیم شیخ ولد اقلیم شیخ (7) رفیق بھائی ٹھیکیدار (8) ڈاکٹر مومن (9) سعد اللہ بیگ ولد خلیل اللہ بیگ۔
وفد نے یہاں کے ایس پی سے بھی ملاقات کرکے بے گناہوں کی رہائی اور قصور واروں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا ، ایس پی نے وفدکے ارکان کی باتوں کو بغور سنا اور انصاف کی یقین دہانی بھی کرائی ہے ، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ وفد نے دورہ کی جو رپورٹ پیش کی اس کے مطالعہ سے ایک بار پھر یہ افسوسناک سچائی سامنے آگئی کہ کھرگون کا فساد ہوانہیں بلکہ کرایا گیا ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر فساد کے موقع پر پولس یا تو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے یا پھر بلوائیوں کی معاونت کرتی ہے، کھرگون میں بھی اس نے یہی کیا، شرپسند عناصر مظلوم اور بے بس لوگوں کی دکانوں اور گھروں کو لوٹتے اور جلاتے رہے مگر پولس نے کوئی ایکشن نہیں لیا ، مولانا مدنی نے کہا کہ پولس اور انتظامیہ کے تعصب اور امتیازی رویہ کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ 185 گرفتاریوں میں مسلمانوں کی تعداد 175 ہے ، انہوں نے کہا کہ اس پر ہی بس نہیں کیا گیا بلکہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلواکر ملبہ کا ڈھیر بنادیا گیا ہے ، یعنی جو کام عدالت کا تھا اسے حکومت نے کردیا، اگر سرکار ہی عدالت ہے تو پھر یہ عدالتیں کیوں؟ انہوں نے کہا کہ وفد کے اراکین نے ہمیں بتایا کہ خوف و دہشت کا ماحول بدستور قائم ہے کیونکہ مسلمانوں کو ہی مجرم بناکر پیش کیا جارہا ہے ، یہ باور کرانے کی کوشش بھی ہورہی ہے کہ جو کچھ ہوا مسلمان ہی اس کے ذمہ دار ہیں ، یہ سوال کوئی نہیں کرتا کہ جب جلوس کا راستہ طے تھا تو انہوں نے مسلم اکثریتی علاقوں سے جلوس نکالنے کی کوشش کیوں کی، ظاہر ہے کہ شرپسند وہاں فساد برپا کرناچاہتے تھے اور پولس و انتظامیہ کی نااہلی اور جانبداری سے وہ اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب ہوگئے ، مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے قانون و انصاف کا دوہرا پیمانہ اپنایا جارہا ہے ،ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک میں نہ تو اب کوئی قانون رہ گیا ہے یا نہ ہی کوئی حکومت جو ان پر گرفت کرسکے، یہ ملک کے امن و اتحاد کے لئے کوئی اچھی علامت نہیں ہے ،ہمیں امید ہے کہ عدالت سیکولرزم کی حفاظت کے لئے مضبوط فیصلہ کریگی تاکہ ملک امن وامان کے ساتھ چلتا رہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو۔
فضل الرحمن قاسمی
پریس سیکریٹری جمعیۃ علماء ہند
9891961134
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں