src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر سپریم کورٹ میں اہم سماعت 9مئی کو - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 7 مئی، 2022

جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر سپریم کورٹ میں اہم سماعت 9مئی کو

 

  

 

                                          

متعصب میڈیا کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر سپریم کورٹ میں اہم سماعت 9مئی کو


جانبدار اور متعصب میڈیا ملک کے امن و اتحاد اور سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ : مولانا ارشد مدنی


نئی دہلی 7/مئی 2022 : ملک میں پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کا ایک بڑاحلقہ پچھلے کچھ عرصہ سے جس خطرناک روش پر عمل پیرا ہے، اس سے پورے ملک کے انصاف پسند لوگ نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس سے بڑی حدتک نالاں و متنفر بھی ہوچکے ہیں، تمام تر مطالبات اور گزارشات کے باوجود ایسے متعصب اورجانبدار میڈیا پر لگام نہیں لگائی گئی ہے، حالانکہ بیشتر موقعوں پر عدلیہ اس قبیل کے اخبارات اور نیوز چینلوں کے خلاف سخت تبصرے کرچکی ہے، لیکن یہ کچھ اس حدتک بے شرم اور بے خوف ہوچکے ہیں کہ انہوں نے اپنی یہ خطرناک روش اب تک ترک نہیں کی ہے، اس کولیکر جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں تمام ترثبوت وشواہد کے ساتھ جو پٹیشن6 اپریل 2020کو داخل کی تھی اس پر آئندہ 9   مئی کو دسویں اہم سماعت ہونے والی ہے،جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈیڑھ سوسے زیادہ ٹی وی چینلوں اور  اخبارات کے تراشے اور اہم تفصیلات پٹیشن کے ساتھ عدالت میں داخل کی گئی ہیں، جن میں انڈیا ٹی وی، زی نیوز، نیشن نیوز، ری پبلک بھارت، ری پبلک ٹی وی، شدرشن نیوز اور نیوز18 وغیرہ جیسے بدنام زمانہ چینل بھی شامل ہیں، جنہوں نے صحافتی اصولوں و اخلاق کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دلآزاری کرتے رہے ہیں اوراپنی اس حرکتوں سے انہوں نے ملک کے امن واتحاد اورسلامتی کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی ہے، اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علما ء ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند یہ قانونی لڑائی ہندو و مسلم کی بنیاد پر نہیں لڑ رہی ہے بلکہ اس کی یہ لڑائی ملک اور قومی یکجہتی کے لئے  ہے جو ہمارے آئین کی بنیادی روح ہے۔ جس کو میڈیا اپنی غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ اور اشتعال انگیزی سے مسلسل ملک کے ماحول کوخراب کر رہی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹی وی چینل جو نفرت انگیز مواد پروستے ہیں اور جس طرح کی اشتعال انگیز بحث کرتے ہیں اس سے ملک کی فرقہ وارانہ فضااور اس کا امن و اتحاد خطرہ میں پڑجاتا ہے ، ملک کی اکثریت ایک مخصوص قوم کو اپنے دشمن کے طورپر دیکھنے لگتی ہے، باہمی ٹکڑاؤ، انتشار، مذہبی کشیدگی اور فسادات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں ایک سنگین جرم ہے، بلکہ سچائی یہ ہے کہ اپنی شر انگیز اور جانبدارانہ رپورٹنگ سے میڈیا کے اس حلقے نے ملک کے امن و اتحاد اور سلامتی کو زبردست نقصان پہنچایا ہے،  اس کے لئے ان ٹی وی چینلوں کو ہرگز ہرگز معاف نہیں کیاجاسکتا ہے، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ  ایسا نہیں ہے کہ ان کے لئے کوئی ضابطہ اور قانون نہیں ہے، ضابطہ موجود ہے جس کا حوالہ عدالت میں اس سے پہلے والی سماعت پر دیدیا تھا، لیکن اس کے بعد بھی یہ ٹی وی چینل ضابطوں کی صریح خلاف ورزی کرکے اشتعال انگیزی پھیلاکر مسلمانوں کی دانستہ کردارکشی کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بعض انتہائی طاقتورلوگوں کی شہ ملی ہوئی ہے، اور شاید اسی لئے انہیں نہ توملک کے آئین و قانون کی کوئی پروا ہے اور نہ ہی ان  ضابطوں کی جو ان کے لئے خاص طور سے بنائے گئے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے آئین نے جو ہمیں اختیارات دیئے ہیں اس طرح کے معاملات میں ہم اپنے انہی اختیارات  استعمال کرتے ہوئے عدالت کا رخ کرتے ہیں جہاں سے ہمیں انصاف بھی ملتاہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس معاملہ میں بھی عدالت ایک ایسافیصلہ دیگی جس سے ملک کے بے لگام میڈیاکے خطرناک عزائم کوروکنے میں مدد ملے گی اورملک کو اشتعال انگیزی اور مذہبی شدت پسندی سے نجات حاسل کرنے میں مدد ملے گی۔ قابل ذکر ہے کہ 2/ستمبر 2021کو دوران سماعت ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے جسٹس ٹی وی نلاؤڑے اور جسٹس ایم جی سیولکرن کی جانب سے دیا گیا فیصلہ عدالت میں داخل کیا تھا جس میں لکھا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑا واویلا مچایا گیا تھا کہ تبلیغی مرکز سے ہندوستان میں کرونا پھیلا ہے اور اس کے لئے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ میڈیا نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے  فیک نیوز چلائی اورعوام میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی وجہ سے کرونا پھیلا جبکہ اس کی حقیقت عوام کے سامنے آچکی ہے لہذا ایسے نیوز چینلوں اور اخبارات کے خلاف کاروائی کی جانی چاہئے۔ اسی درمیان پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے عدالت میں چھ صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی تھی اور عدالت کو بتایا گیا کہ ابتک 49 پرنٹ میڈیا کے خلاف شکایتا موصول ہونے کے بعد پریس کونسل پروسیجر فورا انکوائری ریگولیشن 1979 کے تحت کاروائی کی جارہی ہے۔ تبلیغی مرکز کو لیکر کمیونل رپورٹ کے کرنے والے اخبارات جن کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہیں دینک جاگرن، لوک مت، دینک بھاسکر، ٹائمز آف انڈیا، نو بھارت، دی ہندو، دوییا بھاسکر، وجئے کرناٹک، دی ٹیلی گراف، اسٹار آف میسور، ممبئی سماچار، تہلکا میگزین، انڈیا ٹودے و دیگر شامل ہیں۔ سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اور ان کے معاون وکلاء پیش ہونگے، اس پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی ہے۔


               

فصل الرحمن قاسمی 

پریس سیکریٹری جمعیتہ علماء ہند

                                                                      

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages