قطب مینار کیس کا فیصلہ 9 جون کو :
بھگوان 800 سال سے بغیر پوجا کے ہیں، تو آگے بھی رہنے دو'، عدالت
قطب مینار کیس کی سماعت آج دہلی کی ساکیت عدالت میں مکمل ہوئی۔ اب اس معاملے پر فیصلہ 9 جون کو آئے گا۔ آج اے ایس آئی اور ہندو فریق نے اپنے دلائل پیش کئے۔ ہندو فریق نے کہا کہ قوۃ الاسلام مسجد 27 مندروں کو گرا کر تعمیر کی گئی، جہاں ہندوؤں کو عبادت کا حق ملنا چاہیے۔ ہندو فریق کے دلائل کے درمیان عدالت (اے ڈی جے نکھل چوپڑہ) نے کہا کہ اگر دیوتا وہاں 800 سال سے بغیر پوجا کے رہ رہے ہیں تو انہیں ایسے ہی رہنے دیا جا سکتا ہے۔
عدالت اب 9 جون کو اس معاملے میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔ عدالت نے دونوں فریقین (اے ایس آئی اور ہندو فریق) سے ایک ہفتے میں تحریری جواب دینے کو کہا ہے۔
اے ڈی جے نکھل چوپڑہ نے کہا کہ حکم 9 جون کو آئے گا جس میں عدالت فیصلہ کرے گی کہ درخواست کو منظور کرتے ہوئے مسجد کے احاطے میں موجود ہندو جین دیوتاؤں کی پوجا کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ اس سے قبل سول عدالت ہندو فریقین کی درخواست خارج کر چکی ہے۔
اے ایس آئی نے عدالت میں اپنے دلائل میں کہا ہے کہ قطب مینار میں مذہبی سرگرمی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ ایک یادگار ہے۔ دوسری جانب ہندو فریق کی جانب سے ہری شنکر جین کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پختہ شواہد ہیں کہ یہاں 27 مندروں کو گرا کر قوۃ الاسلام مسجد بنائی گئی ہے، اس لیے انہیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت دی جائے۔
سماعت کے دوران جج نے ہندو فریق سے پوچھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یادگار کو پوجا پاٹھ کی جگہ بنادیا جائے؟ پھر مونومنٹ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ہری شنکر جین نے کہا کہ ہم کوئی مندر نہیں بنانا چاہتے۔ بس عبادت کا حق چاہتے ہیں۔
فاضل جج نے کہا کہ جس مسجد کی بات ہو رہی ہے وہ ابھی مسجد کے طور پر استعمال نہیں ہوئی۔ جج نے مزید پوچھا کہ اس مسجد(قوۃ اسلام مسجد) کے بجائے مندر بنانے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے۔
اس پر ہندو فریق نے کہا کہ ایسی کئی محفوظ عمارتیں ہیں جن میں عبادت ہوتی ہے۔ تب جج نے کہا کہ ہاں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں آپ (ہندو فریق) دوبارہ مندر بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مان کرکے 800 سال پہلے وہاں مندر تھا، اسے بحال کرنے کا قانونی مطالبہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ یہ عمارت 800 سال قبل اپنا وجود کھو چکی ہے۔
اس پر ہری شنکر جین نے ہندو فریق کی جانب سے ایودھیا کیس کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس میں کہا تھا کہ دیوتا ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو زمین دیوتا کی ہے وہ ہمیشہ دیوتا کی ہی رہتی ہے، جب تک ان کا وسرجن نہ کیا جائیں۔ کہا گیا کہ ایودھیا فیصلے میں پانچ ججوں کی بنچ نے بھی اسے قبول کیا تھا۔
ہندو فریق کا کہنا تھا کہ دیوتا کی مورتی کو برباد کردیا جائے۔ یہاں تک ک اس کے مندر کو منہدم کر دیا جائے تو بھی دیوتا اپنی الوہیت اور پاکیزگی نہیں کھوتے۔ کہا گیا کہ بھگوان مہاویر، دیویوں اور بھگوان گنیش کی تصویریں اب بھی موجود ہیں۔
اس پر عدالت نے سوال کیا کہ کیا وہاں مورتیاں بھی ہیں؟ اس پر جین نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ عدالت نے خود ان کے تحفظ کے لیے کہا تھا۔ یہاں ایک لوہے کا ستون (1600 سال پرانا) بھی ہے جس کا تعلق پوجا سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ستون پر سنسکرت میں اشلوک بھی لکھے ہیں۔ ہندو فریق کے وکیل نے کہا کہ اگر دیوتا موجود ہے تو پوجا کا حق بھی موجود ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں