src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> یتیموں کے حالات اور ہماری ذمہ داریاں - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 14 مئی، 2022

یتیموں کے حالات اور ہماری ذمہ داریاں




یتیموں کے حالات اور ہماری ذمہ داریاں


تحریر : مفتی محمد عامر یاسین ملی مالیگاؤں
8446393682



اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انسان کے سب سے خیر خواہ اور محسن اس کے والدین ہوا کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جس انسان کے والدین ( دونوں یا کوئی ایک ) فوت ہوجائیں وہ اپنے آپ کو اس بھری دنیا میں انتہائی اکیلا اور بے سہارا محسوس کرتا ہے ۔ بلوغت سے پہلے جس بچے کے ماں یا باپ کا وصال ہوجائے اسے یتیم کہتے ہیں ۔ یتیم ہر لحاظ سے حسن سلوک ، ہمدردی اور مدد کا مستحق ہوتا ہے ، قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں تفصیل کے ساتھ یتیموں کے متعلق ہدایات ملتی ہیں ۔ سورہ نساء کے آغاز میں یتیموں کے ساتھ رہنے سہنے کے بہترین اصول اور احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ مثلاً یتیموں کو ان کا مال دو۔ ان کے مال کو تبدیل نہ کرو، ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ ۔ اگر اپنے مال کے ساتھ ملاؤ گے تو یہ بہت بڑا گناہ ہوگا۔ اگر یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو ان سے نکاح کرلو۔ یتیموں کو آزماتے رہو جب ان میں صلاحیت پاؤتو ان کا مال ان کے حوالے کر دو۔ یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کے مال کو ضرورت سے زیادہ استعمال مت کرو، مالدار کو چاہیے کہ یتیم کے مال کو اپنے استعمال میں لانے سے بچتا رہے، جب یتیم کا مال اس کے حوالے کردو تو اس وقت گواہ بنالو۔ مال کی تقسیم کے وقت اگر یہ یتیم حاضر ہوجائے تو اس سے اچھے سلوک سے پیش آتے ہوئے اسے بھی کچھ مال دے دو۔اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 36 میں اللہ تعالی کی عبادت کے حکم کے ساتھ جن چیزوں کا حکم دیا گیا، ان میں سے ایک یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا بھی ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 34 میں بھی ہے : اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ (تصرف نہ کرو )مگر اس طریقے سے جو سب سے بہتر ہو یہاں تک کہ یتیم اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔

احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اور اپنے یا پرائے یتیم کی کفالت کرنے والا آدمی جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے اور آپ نے اپنی انگشتِ شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کر کے بتلایا اور ان کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی۔ (صحیح بخاری) مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ والی انگلی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی اس طرح اٹھا کر کہ ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا بتلایا کہ جتنا تھوڑا سا فاصلہ اور فرق تم میری ان دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس مرد مومن کے مقام میں ہوگا جو اللہ کے لیے اس دنیا میں کسی یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے خواہ وہ یتیم اس کا اپنا ہو (جیسے پوتا یا بھتیجا وغیرہ) یا پرایا ہو یعنی جس کے ساتھ رشتہ داری وغیرہ کا کوئی خاص تعلق نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین وہ گھرانہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف اللہ کے لیے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پڑا تو ہر ہر بال کے حساب سے اس کی نیکیاں ثابت ہوں گی اور جس نے اپنے پاس رہنے والی کسی یتیم بچی یا یتیم بچے کے ساتھ بہتر سلوک کیا تو میں اور وہ آدمی جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے۔ (مسند احمد، جامع ترمذی) (ماخوذ معارف الحدیث)
قارئین! غور کیجئے کہ اس قدر واضح اسلامی ہدایات کے باوجود آج ہمارے گھر خاندان اور معاشرے میں موجود یتیموں کا کیا حال ہے؟ بہت دور جانے کے بجائے اپنے مرحوم بھائی بہن یا مرحوم بیٹے بیٹی کی یتیم اولاد کے سلسلے میں غور کیجئے کہ کیا ہم ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں یا ہم نے محض زبانی ہمدردی اور سال بھر میں ایک دو جوڑی کپڑا( زکوٰۃ) اور ایک دو بار راشن دے کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت اور علاج و معالجہ کی فکر کرتے ہیں؟ معاف کیجئے! آج بہت کم افراد ایسے ہیں جو اپنے یتیم بھتیجے بھتیجی ، بھانجے بھانجی اور پوتے پوتی یا نواسے نواسی کے سلسلے میں سنجیدہ کوشش کرتے ہیں ورنہ اکثر لوگوں نے اس مظلوم طبقے سے آنکھیں پھیر رکھی ہیں۔ بلکہ بعض بدبخت تو ایسے بھی ہیں جو ان کے حقوق کو دبانے اور ان کی جائیداد کو ہتھیانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ میں آپ کو اس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں
پہلی مثال: کسی بچے والی بیوہ خاتون کا رشتہ سامنے آئے تو لوگ خاتون سے تو نکاح کرلیتے ہیں لیکن اس کے یتیم اور معصوم بچوں کی کفالت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کیا یہ ان بچوں پر دوہرا ظلم نہیں ہے کہ باپ کے بعد ان کو ماں کے سائے سے بھی محروم کردیا جائے ؟ اسی طرح اس غم زدہ بیوہ کو اپنے بچے سے بھی دور کردیا جائے! حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے نکاح فرمایا تو ان کے یتیم بچوں کی کفالت بھی قبول کی۔
دوسری مثال: زید کے چار بیٹے اور بیٹیاں ہیں ۔ بڑے بیٹے عمر کا اچانک انتقال ہوجاتا ہے ، وہ اپنے پیچھے معصوم اور نابالغ بچوں کو چھوڑ جاتا ہے ۔ اس کے کچھ عرصے بعد خود زید کا انتقال ہوتا ہے ، اس کا ترکہ بیس لاکھ روپیہ ہے ۔ اگر عمر موجود ہوتا تو ترکہ اس طرح تقسیم ہوتا کہ 
1) چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک کو چار چار لاکھ روپیہ ملتا اور دونوں بیٹیوں کو دودو لاکھ ملتا۔
چونکہ عمر کا اپنے باپ سے پہلے ہی انتقال ہوگیا اس لئے وہ اپنے حصے سے محروم ہوگیا ۔ اور میراث کا ضابطہ یہ ہے کہ قریب کے رشتے دار کے ہوتے ہوئے دور کے رشتے دار محروم ہوتے ہیں جیسے بیٹے کی موجودگی میں پوتا محرم ہوگا۔ اس ضابطہ کے تحت تینوں بھائی اور بہن جب ترکہ تقسیم کرتے ہیں تو ان کا حصہ بڑھ کر اس طرح تقسیم ہوتا ہے:
 2) ہر ایک بیٹے کو 5 لاکھ اور ہر ایک بیٹی کو ڈھائی لاکھ روپے ملتے ہیں ۔
 اب اگر مرحوم بھائی کے غریب و نادار بچے دادا کی میراث سے حصے کا مطالبہ کریں تو ان کے چچا اور پھوپھیاں ان کو فتوی دکھا کر کہتے ہیں اگر تمہارا حصہ ہوتا تو ہم ضرور دیتے ۔ حالانکہ اسی سورہ نساء میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: 
میراث کی تقسیم کے وقت دور کے رشتہ دار اور یتیم و مسکین جو میراث میں حصہ پانے سے محروم ہو رہے ہوں وہ بھی موجود ہوں تو میراث پانے والوں کااخلاقی فرض یہ ہے کہ اس مال میں سے اپنے اختیار سے کچھ حصہ(بطور تبرع اوراحسان) ان کو بھی دے دیں، اور ان سے خوبی اور نرمی سے بات کریں۔
لیکن مرحوم عمر کے حریص اور لالچی بھائی بہنوں کو قرآن کی یہ ہدایت اور یتیم کی کفالت کی فضیلت بتانے والی حدیث نظر نہیں آتی۔ اس لئے کہ اب اس پر عمل کے نتیجے میں ان کو مال خرچ کرنا پڑے گا۔
آج ہمارے معاشرے میں یہ صورتحال بالکل عام ہے۔ اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور مالدار گھرانوں کے یتیم بچے بچیاں اور بیوہ عورتیں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ غربت نے انہیں دینی و دنیاوی لحاظ سے کہیں کا نہ رکھا۔ آخر ان کے حقوق میں کوتاہی کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ہم دنیا سے چلے جاتے اور ہمارے بیوی بچوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا تو کیا ہمیں گوارا ہوتا ! اسی طرح جو لوگ یتیموں کے مال اور جائیداد پر قابض ہیں کیا وہ اللہ پاک کے اس سخت ارشاد سے بے خبر ہیں کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق ظلم کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں، وہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ کے انگارے جمع کر رہے ہیں اور ایسے لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ ( سورہ نساء)
قارئین ! خدارا اپنے اردگرد موجود یتیموں کی خبر گیری کیجیے ، ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیے۔ اپنے اوپر عائد ان کے حقوق ادا کیجیے، ان کی کفالت کیجیے ، اگر ان کا مال آپ کے پاس رکھا ہے تو مناسب وقت پر وہ مال ان کے حوالے کردیجیے ۔ اسی طرح جو ادارے ان یتیم بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کا بھی بھرپور تعاؤن کیجئے ۔ یقینا یہ عمل ہمارے لیے بڑے اجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے یتیموں کی زندگیوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے ۔
*-*-*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages