src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 6 اپریل، 2022

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

 




رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی


آٹھویں قسط

محمد نعمان مکی۔


دمام سے ہمارے ایک مخلص دوست عبداللہ ‌صاحب بھٹکلی، کا میسیج موصول ہوا، جس میں انہوں نے اس عنوان کی اہمیت سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا ایک ذاتی تجربہ شئیر کیا ہے۔ موصوف ایک انجینیئر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی خوبصورت انداز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور ان کی اذان اتنی پیاری ہوتی ہے، سبحان اللہ کہ جو سنتا ہے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ طالب العلمی کے زمانے سے ہی موصوف کی اذان کے مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی یکساں شیدائی ہوا کرتے تھے۔

سحری کا ساںٔرن :
موصوف اپنا تجربہ سناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ، 2010 کی بات ہے، میں دہلی کے ایک علاقے میں رہا کرتا تھا۔ جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے دیکھا کہ صبح 3 بجے سے ہر 10 منٹ کے وقفے سے زوردار سائرن بجتا تھا، جس کی وجہ سے نیند میں بہت ہی زیادہ خلل ہوتا، اور بعض اوقات غصے اور تکلیف کی وجہ سے زبان سے برا بھلا بھی نکل جاتا تھا۔ میں ایک مسلمان ہوں اور الحمدللہ تہجد کا پابند بھی ہوں، اس کے باوجود اس قدر تکلیف محسوس کر سکتا ہوں، تو ذرا سوچیے ان برادران وطن کے بارے میں جو اس مسجد کے ارد گرد کافی تعداد میں بستے ہیں، ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ ان میں سے کوئی ضعیف و معذور بھی ہونگے، تو کوئی دل کے مریض ہونگے، کسی کو دواںٔی کھا کر بڑی مشکل سے نیند آںٔی ہوگی۔ ان میں سے وہ بھی ہونگے جو رات بھر نائٹ ڈیوٹی کر کے تبھی آکر  سوںٔے ہونگے، اور غیر مسلم ہونے کی وجہ سے جنکا رمضان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کا رشتہ اسلام سے بس اتنا ہے کہ وہ مسلمانوں کے پڑوس میں بستے ہیں۔ ذرا غور فرمائیں کہ وہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کتنا بدظن ہوتے ہوں گے, اور ایک عجیب بات ہم نے وہاں یہ بھی دیکھی، کہ ہمارے محلے میں ایک فقیر اپاہج اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر لاؤڈ سپیکر لگاںٔے‌ ہوںٔے، زوردار محمد رفیع کے گانے لگا کر پورے محلے بھر میں گھوما کرتا تھا، جس کی وجہ سے تہجد اور لوگوں کی انفرادی عبادات میں کافی دقت پیش آتی تھی۔ اور افسوس کی بات یہ تھی، اس کو روکنے کے لیے مسجد کی کسی کمیٹی کی جانب سے کوئی کوشش نظر نہیں آتی تھی۔ اور محلے کے سیاسی اور اہل رسوخ لوگوں کی وجہ سے مقامی علماء حضرات بھی خموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ لہذا *اس طرح کے غیر اخلاقی کاموں کو اسلام کے نام پر پیش کرنے سے روکنے کی کوشش وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اس سلسلے کو جاری رکھیں اور کوشش کریں کہ آپ کا یہ پیغام پورے ہندوستان میں پہنچے۔ (میسیج یہاں پر ختم ہوا)


کیا سحری کے اعلانات ضروری ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب لوگوں کی پاس گھڑیاں، الآرم اور موبائل فون وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے، لہذا اس وقت اعلانات وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں کو سحری کے لیے جگانا اس وقت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ لیکن آج کے موبائل اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی، رات تین بجے سے بار بار لاؤڈ سپیکر پر اعلانات کرکے ہر ایک کو جگانے کی کوشش کرتے رہنا جب کے غیر مسلم پڑوسی اور بیمار، اور چھوٹے بچے وغیرہ سوںٔے ہوئے ہیں، یہ بہت ہی نامناسب، غیر اخلاقی اور غیر شرعی کام ہے۔

کچھ لوگ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر لاؤڈ سپیکر پر قرأت و نعت کی یا قوالیوں کی سی ڈی وغیرہ چلانا شروع کردیتے ہیں، اور کہیں تہجد کے وقت میں مساجد کے باہر کے اسپیکر سے تلاوت قرآن یا سلام پڑھنا شروع کردیتے ہیں‌۔ جس کے متعلق مفتیان کرام نے واضح طور پر ناجائز ہونا لکھا ہے۔ جس محلے میں یہ کام ہورہے ہوں، وہاں کے سنجیدہ احباب اس کی فکر فرمائیں، اور اس طرح کے نامناسب اور اخلاقی طریقوں کو اسلام کے نام پر پیش کیے جانے پر پابندی لگانے کی کوشش کریں۔ عموماً غیر مسلم برادران وطن کے لیے اذان ہو یا کچھ اور، سب ایک جیسے ہی ہیں، کہ سمجھ میں تو کچھ آتا نہیں ہے، لہذا وہ تو سب کو اذان ہی سمجھتے ہیں۔

لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی شرعی حد:
دراصل اسلام اور علمائے اسلام نے شروع ہی سے ان سارے امور کی طرف توجہ مبذول رکھی ہے اور لاؤڈاسپیکر کے استعمال کے سخت اصول بنائے ہیں، اور لوگوں کے چین، سکون اور آرام کا بہت لحاظ رکھا ہے، تاکہ کسی مسلمان کو ہی نہیں‌ بلکہ کسی بھی انسان کو اس کی وجہ سے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں:

فتویٰ نمبر١:

سحری اور اِفطار کے اوقات کی اطلاع دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن لاوٴڈ اسپیکر پر اعلانات کا اتنا شور کہ لوگوں کا سکون غارت ہوجائے اور اس وقت کوئی شخص اطمینان سے نماز بھی نہ پڑھ سکے، ناجائز ہے۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

 فتویٰ نمبر۲:

لوگوں کو جگانے کی خاطر لاوٴڈ اسپیکر پر قوالی یا تقریر وغیرہ کی کیسٹس چلانا حرام ہے، اس پر نکیر کرنا بلکہ بند کرنا ضروری اور واجب ہے، البتہ اگر ماہ مبارک میں سحری کا وقت ختم ہونے سے مثلاً ایک گھنٹہ قبل صرف ایک مرتبہ وقت بتلا کر اور اسی طرح سحری سے دس منٹ قبل وقت بتلا کر صرف اعلان کردیا جائے تاکہ سحری کھانے والے تیار کرنے والوں کو سہولت ہوجائے *اگر اتنے سے اعلان سے بھی نمازیوں یا غیر مکلف لوگوں کو تکلیف ہو تو اس کو بھی نہ کیا جائے، دس دس منٹ کے وقفہ سے وقت بتانا بھی جائز نہیں۔

(واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
جواب نمبر: 42068
    فتوی: 1714-0000/H=11/1433 

فتویٰ نمبر٣:

باہر کا لاوٴڈ اسپیکر جو صرف اذان کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسے جمعہ کے دن خطبہ عربی کے لیے یا نماز پڑھانے یا نماز کی قراء ة سننے کے لیے یا بیان کے لیے کھولنا جائز نہیں۔ اس سے محلہ پڑوس والوں کی نماز، تلاوت، تسبیحات ادرادوظائف میں خلل واقع ہوگا۔بیماروں کے آرام وسکون میں اور برادران وطن کی نیند میں اور ان کے آرام میں خلل ہوگا۔ باہر کے لاوٴڈاسپیکر کو صرف اذان کے استعمال میں لانا چاہیے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

(دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
جواب نمبر: 24602
فتوی(ب): 1656=1302-9/1431 )

فتویٰ نمبر٤:

سحری کے وقت مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر نعتیں پڑھنا

اِس طرح نعت خوانی کرنا جس سے لوگوں کے کاموں میں خلل ہو، بیماروں، معذوروں کو تکلیف ہو، جائز نہیں، کیوں کہ فقہاءِ  کرام نے ایسی بلند آواز سے ذکر یا تلاوتِ  قرآن کریم کو منع کیا ہے، جس سے کسی کو تکلیف یا تشویش ہو؛ لہٰذا اگر سحری کے وقت  مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر اتنی بلند آواز سے نعت خوانی وغیرہ کی جائے کہ اس سے لوگوں کی عبادت یا  کاموں میں خلل واقع ہو  اور  انہیں تکلیف   ہو تو یہ  حکمِ شریعت کی خلاف ورزی  ہے،  اِس سے اجتناب ضروری ہے۔اگر نعت خوانی کا مقصود لوگوں  کو بیدار کرنا ہو تویہ آدابِ نعت کے خلاف ہے، اور اگر مقصود لوگوں میں نماز  کی ترغیب وتشویق کو پیدا کرکے، انہیں نماز کا پابند بنانا ہے، تو  یہ مقصود دوسرے وقتوں میں بھی نماز کی تلقین و ترغیب کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

شامی میں ہے:

" وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفاً وخلفاً على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 660)، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ، مطلب في رفع الصوت بالذکر، ط: سعید)

صحیح مسلم  میں ہے:

65 - (41) حدثنا حسن الحلواني، وعبد بن حميد جميعا عن أبي عاصم، قال: عبد، أنبأنا أبو عاصم، عن ابن جريج، أنه سمع أبا الزبير، يقول: سمعت جابرا، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده»

(صحيح مسلم (1 / 65), کتاب الإیمان ، باب بیان تفاضل الإسلام وأي أمورہ أفضل، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

شامی میں ہے:

"لايجب انتباه النائم في أول الوقت، ويجب إذا ضاق الوقت، نقله البيري في شرح الأشباه عن البدائع من كتب الأصول، وقال: ولم نره في كتب الفروع فاغتنمه اهـ.قلت: لكن فيه نظر لتصريحهم بأنه لا يجب الأداء على النائم اتفاقًا فكيف يجب عليه الانتباه."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 358)، کتاب الصلاۃ ، قبیل مطلب في تعبُّدہ علیہ الصلاۃ والسلام قبل البعثۃ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144209200298
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

جاری ہے۔

ازراہ کرم اس پیغام کو آگے پھیلاںٔیں۔

Wednesday 6th April 2022.


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages