src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> نئی نسل پر شوشل میڈیا کے سائیڈ ایفیکٹس - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 9 اپریل، 2022

نئی نسل پر شوشل میڈیا کے سائیڈ ایفیکٹس

 



 نئی نسل پر شوشل میڈیا کے سائیڈ ایفیکٹس


وفا ناہید خیال اثر


ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی آسمان سے باتین کرتی قیمتوں نے عوام کے دماغ کی چولیں ہلادی ہیں. دراصل مرکز میں بیٹھی برسراقتدار مودی حکومت اچھے دنوں کی آس اور وکاس کا نعرہ لگا کر اقتدار پر تو قابض ہوگئی مگر اپنے سیاسی ہتھکنڈوں سے عوام کا جینا حرام کردیا ہے . جہاں ایک طرف بے روزگاری سے پریشان حال نوجوان نسل ڈیجیٹل دنیا سے اس قدر منسلک ہوگئی ہے کہ وہاٹس فیس بک جیسی شوشل میڈیا سائیٹس کو ہی حرف آخر سمجھ لیا. ڈیجیٹل انڈیا نے ان نوجوانوں کو پب جی اور فری فائٹر جیسے تخریب کار گیمز میں الجھادیا ہے . مختلف ایپس پر ویڈیو اپلوڈ کر کمائی کے ذرائع نے ان نوجوانوں سے ان کی غیرت حمیت اور خودداری کا جنازہ نکال دیا ہے. رہا ضمیر بے چارہ تو وہ غیرت اور خودداری کی موت پر فاتحہ پڑھ کے دل کے قبرستان میں بے حمیتی کی چادر اوڑھ کر سوگیا ہے. اب تو جیسے یہ نسل کسی سرکش سانڈ کی طرح آزاد ہوکر بے لگام ہوگئی ہیں.  اب ان کی واحد دنیا ان کا موبائل اور سوشل میڈیا کا اٹھاہ گہرا پلیٹ فارم ہے. قارئین
! ہمیں یہ تحریر کرتے ہوئے بالکل عار محسوس نہیں ہورہی ہیں کہ اب ساری انسانیت آپ کو عملی طور پر نہیں بلکہ اس شیطانی جال یعنی شوشل میڈیا پر ملیں گی. دوسری اہم بات اس خرافات میں ہمارے مسلم نوجوان سرفہرست ہیں . قارئین! اسلامی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو محمد بن قاسم نے محض 16 سال کی کم سن عمر میں سندھ پر چڑھائی کی تھی اور فاتح سندھ کہلائے تھے. اس عمر میں ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں سے بال بیٹ نہیں چھوٹتا تھا اب تو نئی ٹیکنالوجی موبائل فون نے انہیں ناکارہ اور ناحلف بنادیا ہے. آج شوشل میڈیا کی ہر سائیٹس پر آپ کو کچھ پوسٹ یا ویڈیو ایسے ملینگے جس میں امداد کی اپیل کی گئی ہے. ادائیگی آپ کو آن لائن فون پے اور گوگل پے سے کرنی ہے. نہ دینے والے کو پتہ ہے کہ اس پوسٹ میں کتنی سچائی ہے کیونکہ رابطہ بھی اس سے کرنا ہے یعنی پوسٹ میں موجود نمبر سے. آج نوجوان لڑکے شوشل میڈیا پر ویڈیو بناکر اپلوڈ کرتے ہیں . جس میں ایک ہٹا کٹا شخص 2 - 3 بچوں کو لے کر گھوم رہا ہے بچے بھوکے ہیں . وہ ہر کسی  کے آگے  دست سوال دراز کرتا ہے. اب بچے بھوک سے نڈھال ہے ان ہر نقاہت طاری ہے تب کوئی شخص اکر کھانا پانی دے جاتا ہے اور سب ٹھیک ہوجاتا ہے 
اس طرح جو اسلام ہمیں زکوۃ خیرات کرکے غریبوں کی مدد کرنا سکھاتا تھا. اب ان مستحق افراد کی جگہ یہ ذہنی بیمار اور بے غیرت افراد آپ کی محنت کی کمائی بڑی آسانی سے ہتھیالیتے ہیں. قارئین! اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور اقتدار میں غرباء اور مساکین ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے. ارے جاہلوں اسلام واحد وہ مذہب جو مکمل ضابطۂ حیات ہے . ہمارے انبیائے کرام بھی اپنے زور بازو پر یقین کرکے اپنے اہل و اعیال کی کفالت کیا کرتے تھے. خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنی خلیفہ بننے کے بعد بھی اپبے کاروبار سے منسلک تھے تب صحابۂ کرام نے ان کا وظیفہ بیت المال سے جاری کیا تاکہ ان کے اہل خانہ کی کفالت ہوسکے . ہمارے خلفائے راشدین بیت المال سے ایک پائی بھی زیادہ لینا گناہ سمجھتے تھے. جبکہ آج کا دور تو یہ ہے کہ ذرا سی کرسی کیا مل جاتی ہے خود کو ہفت اقلیم کا بادشاہ سمجھ کر سارے بیت المال کی 70 فی صد کمائی سے جیبیں بھری جاتی ہیں اور عوام کو بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے. اپنے گھروں سامان تعیش سے بھر دیا جاتا ہے . جبکہ ہمارے پیارے آقا نبئ آخری الزماں حضرت محمد  نہایت سادہ لباس پہنتے جس میں جگہ جگہ پیوند لگا ہوتا. اکٹر کئی کئی دن فاقے سے گزار دیتے. ہمارے پیارے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطعہ کریں تو پتہ چلے گا دونوں عالم کے شہنشاہ کس طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر فاقہ کشی کے ایام گزار دیتے تھے جبکہ ان کی ایک ابروئے جنبش سے دنیا کی آسائشیں ان کے قدموں میں ہوتی. کیا کچھ نہیں تھا ان کے بس میں مگر ان کی غیرت اور خودداری ان کی حیات طیبہ کی وہ روشن مثال ہے جسے آپ زر سے لکھا جائے تو اس کا حق ادا نہیں ہوگا. ہم اس پیغمبرﷺ کی امت ہے. جو رب کے حضور گڑگڑاکر ہماری بھلائی اور بخشش کے لئے دعا مانگتے تھے. زکوۃ ادا کرنے سے جہاں مال پاک ہوتا ہے اور صدقہ ہماری جان و مال کی حفاظت کرتا ہے اور اس پر ان غرباء مساکین اور یتیموں کا حق ہے. جو دنیائے حوادث میں بے یار و مددگار ہے. جو ہم سے زکوۃ اور صدقہ لے کر ہماری بلاؤں کو اپنے سر لیتے ہیں. اب ایسے میں وہ لوگ جو اللہ کے فضل کرم سے تندرست ہیں مگر معاشی تنگدستی میں کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے. بلکہ اب تو ایسے لوگوں کو شوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا سہارا ہاتھ لگ گیا ہے نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے. میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے اس ماہ مقدس میں ایک گزارش کرتی ہوں کہ باغیرت اور باضمیر بنئے انشاء اللہ تعالی دولت اور شہرت آپ کے گھر کی کنیز ہوگی . کیونکہ جس طرح ٹھونک پیٹ کر لوگ لڑکی پسند کرتے ہیں. امور خانہ داری میں طاق  اور سگھڑ لڑکی کو ہی گھر کی بہو بناتے ہیں تو بالکل اسی طرح لوگ داماد بھی باغیرت اور خوددار پسند کرتے ہیں سسرال کے مال کے پر نظر رکھنے والا اور ہر وقت دوسرں پر انحصار کرنے والا مرد کبھی خوددار نہیں ہوسکتا. 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages