تاریخ کا مطالعہ کیے بغیر مستقبل کا سفر ممکن نہیں
'اردو صحافت کے 200 سال' پر منعقدہ سیمینار میں شاہد لطیف کا اظہار خیال
جلگاؤں (نامہ نگار) :"دنیا میں پیغام حق کے لیے زبان کی فصاحت ضروری ہے ۔صحافتی طاقت نے سوچ و فکر کو نئی سمت اور دنیا کو انقلابات عطا کیے ہیں ۔اردو صحافت ہمیشہ سے جرات، حوصلہ اور صداقت کی علامت رہی ہے ۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ کا مطالعہ کیے بغیر مستقبل کا سفر ممکن نہیں ہے ۔" ان خیالات کا اظہار معروف صحافی و مدیر انقلاب شاہد لطیف نے تھیم کالج جلگاؤں میں 'اردو صحافت کے 200 سال' اس موضوع پر منعقدہ سیمینار میں اپنے کلیدی خطبہ میں کیا۔ جلسہ کی صدارت عبدالکریم سالار نے کی جب کہ شمع فروزی کے ذریعے افتتاح ڈاکٹر اقبال شاہ نے کیا۔
قبل ازیں ڈاکٹر اختر شاہ کی تلاوت سے سیمینار کا آغاز عمل میں آیا ۔پروفیسر ابراہیم پنجاری اور ڈاکٹر چاند خان نے مہمانوں کی گل پوشی کی۔طالبہ فرحت انجم اور دیگر نے اپنی مترنم آواز میں مجاہد جلگانوی کا تحریر کردہ ترانہ اقراء پیش کیا۔قاضی مزمل الدین ندوی نے سیمینار کی غرض و غایت بیان کی۔سینیئر قلمکار رشید قاسمی نے اپنی تقریر میں شرکاء کو سیمینار سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی تلقین کی۔ مشتاق کریمی نے کہا کہ یہ جلسہ نسل نو اور بزرگوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس سے تحریک پائی جا سکتی ہے. ڈیجیٹل انقلاب نے جہاں کئی فیض پہنچائے ہیں وہیں پرنٹ میڈیا کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں ۔انیس احمد سفدر نے کہا کہ صحافت در اصل روزمرہ کے مقامی اور عالمی واقعات کو پروسیس کرنے اور عوام کو با خبر رکھنے کا کام ہے ۔انھوں نے پہلے شہید صحافی مولوی محمد باقر کا تذکرہ بھی کیا ۔شاہد لطیف نے اپنے خطبہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اردو کا سیکولر کرداد آج بھی باقی ہے۔نئی نسل کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے صحافت کی جانب متوجہ ہونا ہوگا ۔اپنے صدارتی خطبہ میں عبدالکریم سالار نے کہا کہ نوجوانوں کو میدان صحافت کی جانب راغب کرنے کے لیے ہی ہم نے بطور خاص کالج کے طلبہ اور طالبات کو جلسہ میں مدعو کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب ایک صحافی قوم کے مسائل اٹھاتا ہے اور ان کے تعلق سے افسران سے بات کرتا ہے تو کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں ۔ اس موقع پر جناب شاہد لطیف کو ایک خوب صورت 'نشان اقراء' مومنٹو دیا گیا۔بطور مہمان خصوصی اعجاز ملک، ڈاکٹر محمد طاہر، عبدالمجید زکریا اور مفتی محمد ہارون ندوی نے شرکت کی۔نظامت صابر مصطفیٰ آبادی اور پروفیسر وقار نے کی۔


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں