حجاب تنازعہ: مسلم راشٹریہ منچ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی
نئی دہلی 15 مارچ : مسلم راشٹریہ منچ نے حجاب کے معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی پرزور حمایت کی ہے۔ ساتھ ہی، منچ نے سخت الفاظ میں متنبہ کیا کہ کچھ انارکی پھیلانے والوں اور چھوٹی ذہنیت کے لیڈر اپنے ذاتی مفادات کے لیے بچوں کا استعمال کرنے سے بازآجائیں۔ ایم آر ایم نے کہا کہ جولوگ بھی ہندوستان کی فضا میں پھوٹ ڈالو اور گندی سیاست کرو کے طرز پر زہرپھیلارہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، منچ کے قومی کنوینر ماجد تالی کوٹی، شاہد اختر، وراگ پچپور، محمد افضال اور گریش جویال نے ایک ساتھ مل کراعلان کیا... ستیہ میو جیتے۔ ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ اسکول کالج میں طلباء یونیفارم پہننے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں۔ منتظمین نے کہاکہ بات صرف اسکول کالج کی ہی نہیں ہے، اگر کسی طالب علم کی ہندوستانی فوج، فضائیہ یا ایسی کسی بھی جگہ نوکری ہے تو ایسے میں حجاب اورنقاب میں نوکری کرنے کا اصرار کوئی کیسے کرسکتا ہے؟ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اصول و ضوابط پر عمل کرنا ایک باعمل اور اچھے شہری کی پہچان ہے۔
میڈیا انچارج شاہد سعید نے عدالت کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کانگریس اور پی ایف آئی کے جولوگ حجاب پر سیاست کر رہے تھے اور لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھول رہے تھے، انہیں کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے سے جواب دے دیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار لوگ ملک کے اتحاد، سالمیت، خودمختاری، خیر سگالی اور بھائی چارے کو دیمک لگانا چاہتے ہیں۔ جبکہ مسلم پرسنل بورڈ اور نام نہاد علمائے کرام اور مولاناوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ خوشامد اور تفریق کا وقت اب ختم ہو چکاہے۔ انہیں معاشرے میں آگے بڑھ کر تعلیم، ترقی اور روزگار پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ ناخواندگی، جہالت اور انارکی کا راستہ اختیارکرناچاہیے۔
ایم آر ایم ویمن سیل کی قومی کنوینر شالینی علی اور دانشور سیل کے قومی کنوینر بلال الرحمان نے کہا کہ اسلام میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ نقاب یاحجاب پہننیں۔ دونوں نے یہ واضح کیا کہ ہر جگہ کا اپنا ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنا اس جگہ سے وابستہ تمام لوگوں کا فرض ہے۔ اسلام کہیں بھی یہ نہیں سکھاتا کہ آپ اپنی مرضی سے کسی بھی جگہ یا ادارے کا قانون توڑیں۔ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین بلال نے کہا کہ جب بچے مدارس میں پڑھتے ہیں تو کچھ اور ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور جب وہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ڈریس کوڈ مختلف ہوتا ہے۔ اس نظم و ضبط پر عمل کیا جائے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے اور اچھے شہری کی یہی پہچان ہوتی ہے۔
فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، منچ کے قومی کنوینر ماجد تالی کوٹی، شاہد اختر، وراگ پچپور، محمد افضال اور گریش جویال نے ایک ساتھ مل کراعلان کیا... ستیہ میو جیتے۔ ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ اسکول کالج میں طلباء یونیفارم پہننے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں۔ منتظمین نے کہاکہ بات صرف اسکول کالج کی ہی نہیں ہے، اگر کسی طالب علم کی ہندوستانی فوج، فضائیہ یا ایسی کسی بھی جگہ نوکری ہے تو ایسے میں حجاب اورنقاب میں نوکری کرنے کا اصرار کوئی کیسے کرسکتا ہے؟ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اصول و ضوابط پر عمل کرنا ایک باعمل اور اچھے شہری کی پہچان ہے۔
میڈیا انچارج شاہد سعید نے عدالت کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کانگریس اور پی ایف آئی کے جولوگ حجاب پر سیاست کر رہے تھے اور لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھول رہے تھے، انہیں کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے سے جواب دے دیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار لوگ ملک کے اتحاد، سالمیت، خودمختاری، خیر سگالی اور بھائی چارے کو دیمک لگانا چاہتے ہیں۔ جبکہ مسلم پرسنل بورڈ اور نام نہاد علمائے کرام اور مولاناوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ خوشامد اور تفریق کا وقت اب ختم ہو چکاہے۔ انہیں معاشرے میں آگے بڑھ کر تعلیم، ترقی اور روزگار پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ ناخواندگی، جہالت اور انارکی کا راستہ اختیارکرناچاہیے۔
ایم آر ایم ویمن سیل کی قومی کنوینر شالینی علی اور دانشور سیل کے قومی کنوینر بلال الرحمان نے کہا کہ اسلام میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ نقاب یاحجاب پہننیں۔ دونوں نے یہ واضح کیا کہ ہر جگہ کا اپنا ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنا اس جگہ سے وابستہ تمام لوگوں کا فرض ہے۔ اسلام کہیں بھی یہ نہیں سکھاتا کہ آپ اپنی مرضی سے کسی بھی جگہ یا ادارے کا قانون توڑیں۔ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین بلال نے کہا کہ جب بچے مدارس میں پڑھتے ہیں تو کچھ اور ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور جب وہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ڈریس کوڈ مختلف ہوتا ہے۔ اس نظم و ضبط پر عمل کیا جائے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے اور اچھے شہری کی یہی پہچان ہوتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں