شہری سیاست میں اقتدار کیلئے مفاد پرستی کا کھیل کب تک چلتا رہے گا؟
ہمارے شہر کی سیاست میں پارٹیوں کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے- اپنے مفاد کیلئے حصول اقتدار کیلئے پارٹیوں کی تبدیلی کا چلن ہمارے شہر میں عام ہوچکا ہے- اب تو ان لوگوں نے بھی کانگریس پارٹی کو چھوڑ دیا جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لوں گا لیکن کانگریس پارٹی نہیں چھوڑوں گا یہ کوئی اور نہیں سابق امدار شیخ رشید صاحب کہا کرتے تھے اور انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کے راشٹروادی کے شرد پوار نے کانگریس کو بہت نقصان پہنچایا ہے- اور شیخ رشید صاحب کو خود شرد پوار کی راشٹروادی پارٹی کے اعتاب کا شکار بننا پڑا اور اپنے آپ کو پیدایشی کانگریسی کہنے والوں نے ہی مالیگاؤں شہر کو کانگریس مکت کرنے میں بڑا رول ادا کیا اور اپنے اس باپ کو مجبور کردیا جس کی وجہ سے سیاسی پہچان ملی-
مالیگاؤں شہر کو کانگریس مکت کرنے میں راشٹروادی نے ہاتھ بڑھایا اور مالیگاؤں کانگریس مکت ہوگیا؟
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
مالیگاؤں شہر سے کانگریس کی درگت، مسلمان مکت کانگریس ؟ یا کانگریس مکت مسلمان؟
ہمارے شہر کی موجودہ سیاست میں امانت ، دیانت ، صداقت ، اور شرافت کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے ، شرم و حیا اور اصولوں کا دور لد گیا ، تنقید برائے اصلاح ، ماضی ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی ہے- اب مفادات کی سیاست رائج ہوچکی ہے ، جہاں مخالفت برائے مخالفت کے ذریعے سستی شہرت حاصل کرنے اور پارٹی لیڈران کی نظروں میں نمایاں ہونے کا رواج بڑھتا چلا جا رہا ہے- جب ہم اپنے اردگرد کا سیاسی ماحول کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اپنی سیاسی اقتدار دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں ، ہمارے شہر کی جمہوری روایات ختم ہو رہی ہیں ، سیاستدانوں کی اکثریت کو اس بات کی پروا نہیں کہ انہیں عوام نے کس مقصد کے لیے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے بلکہ انہیں تو اپ محض ذاتی مفادات کا تحفظ عزیز ہے ، اچھے لوگ ہر جگہ ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں- سیاست میں بھی انتہائی ایماندار ، محب وطن ، فرض شناس ، اعلی تعلیم یافتہ ، بااخلاق ، اور بے لوث افراد کی کمی نہیں لیکن اس وقت نظر آنے والے سیاستدانوں کی اکثریت ایسی ہے ، جن کا مقصد اور منزل صرف اقتدار کی کرسی ہے-
ان لوگوں کو ہر حال میں اور کسی بھی قیمت پر الیکشن جیت کر کارپوریشن میں عہدہ اور کرسی چاہئیے ہوتا ہے ، ایسے سیاستدانوں کے نظریات صرف اور صرف اپنی موجودہ پارٹی کی مرکزی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے گرد ہی گھومتے ہیں جبکہ ان کا منشور الکشن والے دن ہی پولنگ ختم ہونے تک ہی ہوتا ہے- آج کل ہمارے شہر کے سیاسی منظر پر چھائے ایسے نام نہاد لیڈران کی اکثریت ہے جن کا کوئی نظریہ نہیں ، کوئی منشور نہیں، کوئی سوچ یا سیاسی رائے نہیں ، انہیں صرف ایسی پارٹی کا ٹکٹ چاہیے ہوتا ہے جو الیکشن میں ان کی کامیابی کی ضمانت بنے اور بعد میں اسی پارٹی سے دھوکہ!
ہمارے شہر میں بدقسمتی سے وہی سیاستدان اپنے آپ کو کامیاب تصور کرتا ہے جو ہر بار ہوا کا رخ دیکھ کر ایسی پارٹی میں شامل ہو کر ٹکٹ حاصل کرنے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے اور اسی پارٹی کے رحم و کرم پر کسی بھی طریقے یا ذریعے سے آنے والے اقتدار میں شامل ہو جایے- اور ہمارے شہر کی سیاست میں ایسی کئی شخصیات شامل ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں کے دوران متعدد سیاسی پارٹیاں بدل چکی ہیں- اگر ایسے مفاد پرستوں کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر وہی سیاستدان اپنے حریفوں پر تنقید کے زیادہ نشتر چلاتے دکھائی دیں گے جنہوں نے ایک سے زیادہ وفاداریاں تبدیل کیں ، شاید انہیں اپنے نئے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے اور اعتماد دلانے کیلئے اپنی سابق قیادت پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تنقید کرنا پڑتی ہے- بعض اوقات تو ایسے مواقع پر اخلاقیات کا دامن بھی چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس بات کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا کہ آج جن کے خلاف وہ بڑھ چڑھ کر بیان بازی کر رہے اور برا بھلا کہہ رہے ہیں-
کل تک انہیں ہی سب سے بڑا ایماندار ، محب وطن ، اور ملک و قوم کا مسیحا قرار دیتے تھے- اور ہمارے شہر کو کانگریس مکت کرنے والوں نے کیا راشٹروادی کا دامن تھاما اب راشٹروادی لیڈران کی شان میں قصیدے وہی افراد پڑھنے لگے گے جو شرد پوار اور راشٹروادی کو شجر ممنوعہ قرار دیتے اور کانگریس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے- ویسے بھی شہر کی عوام ایسے مفاد پرست لیڈران سے عاجز آچکی ہیں جن کو اپنی شخصیت پر اعتماد نہیں ہوتا ان کا اعتماد دل بدل کر اقتدار پر قابض ہونے پر ہی ہوتا ہے-
از ✍🏻 قلم :~ شیخ انیس مستری
ترجمان, جنتادل سیکولر، مالیگاؤں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں