src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> کرناٹک میں سیلاب سے بے گھر ہوئے لوگوں کو بھی جمعیۃعلماء ہند نے فراہم کیا آشیانہ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 17 ستمبر، 2021

کرناٹک میں سیلاب سے بے گھر ہوئے لوگوں کو بھی جمعیۃعلماء ہند نے فراہم کیا آشیانہ


کرناٹک میں سیلاب سے بے گھر ہوئے لوگوں کو بھی جمعیۃ علماء ہند نے فراہم کیا آشیانہ

ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں سے نہیں مسلم تاجروں کے ذریعہ پہنچا, ملک میں اقتدارکے لئے ہورہی ہے نفرت کی سیاست : مولانا ارشد مدنی


نئی  دہلی 17 ستمبر 2021 : ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ نہیں بلکہ عرب مسلم تاجروں کے ذریعہ پھیلا جن کے کردار و عمل کو دیکھ کرلوگ متاثر ہوئے اور انہوں نے کسی ڈر اور لالچ کے بغیر اسلام قبول کرلیا، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے آج یہ بات کرناٹک میں میسور سے متصل ضلع گوڈاگو کے سداپور میں منعقد ایک اجتماع میں کہی، اس اجتماع میں آج مولانا مدنی کے ہاتھوں 2019  میں آئے تباہ کن سیلاب میں بے گھر ہوئے 30 لوگوں میں سے 16 لوگوں کو مکانات کی چابیاں دی گئیں ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں, مولانا مدنی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ بات سراسر بے بنیاد اور تاریخی طور پر غلط ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ساتھ آیا، ہندوستان میں مسلمان سو دو سو سال سے نہیں بلکہ تیرہ سو سال سے آباد ہیں، مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہندوستان اور عرب کے درمیان اسلام کی آمد سے پہلے سے تجارتی و کاروباری تعلقات رہے ہیں، البتہ اسلام کی آمد کے بعد کچھ مسلم تاجر عرب سے کشتیوں کے ذریعہ کیرالہ پہنچے اور یہیں آباد ہوگئے، ان کے پاس کوئی فوج اور طاقت نہیں تھی بلکہ یہ ان کا کردار اور اخلاق ہی تھا جس سے متاثر ہوکر یہاں کے مقامی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں کیرالا کے ہی کچھ راجاؤں کا بھی ذکر ملتا ہے، جنہوں نے اسلام قبول کیا ایک راجہ کے تعلق سے یہ ذکر بھی ہے کہ اس نے جب شق القمرکا معجزہ دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا اپنے دربارکے نجومیوں سے اس نے اس بابت دریافت کیا توانہوں نے جو کچھ بتایا اسے سن کر اس کے دل میں عرب جاکر آقاﷺ کی زیارت کرنے کی للک پید اہوئی، چنانچہ اس نے اپنی حکومت کو دوسروں کی نگرانی میں دیکر کشتی کے ذریعہ اپنے سفر کا آغاز کیا لیکن راستہ میں ہی اس کی موت واقع ہوگئی، کیرالہ میں ہندوستان کی سب سے پہلی مسجد اب بھی موجود ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ محمد بن قاسم کا واقعہ تو اس کے بہت بعد کا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ سندھ میں راجہ داہر کی شکست کے بعد جن لوگوں نے محمد بن قاسم سے پناہ طلب کی انہیں پناہ دی گئیں، چنانچہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے مسلمانوں کے اس سلوک سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا، اس کے لئے کسی طرح کی زور زبردستی کی گئی ہو اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے  اور پھر یہ بھی ہے کہ زور زبردستی کے ذریعہ کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا، مولانا مدنی نے آگے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس ملک کی خصوصیت ہے کہ پچھلے تیرہ سو برس سے یہاں ہندو و مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت واخوت کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن اب کچھ لوگ محبت و اتحاد کے اس پختہ رشتے کو توڑ دینا چاہتے ہیں، وہ نفرت اور غلط فہمیوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف محاذ آرائیاں کی جارہی ہیں، اور اب حالات یہ ہیں کہ کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک لوگ ڈر اور خوف کے سایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسے لوگوں کو شاید یہ بات معلوم نہیں ہے کہ یہ ملک اتحاد اور محبت سے ہی آباد رہ سکتا ہے، اور اگر نفرت اور جنگ و جدل کی سیاست کی گئی توپھر یہ ملک تباہ ہوجائے گا، مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند پچھلے سو برس سے ہندوستان میں محبتیں بانٹنے کا کام کررہی ہیں، وہ اپنا امدادی و فلاحی کام بھی مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر کرتی آئی ہے,  اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ آج جن بے سہارا لوگوں کو کرناٹک کے مسلمانوں کے تعاون سے مکانات کی چابیاں دی گئی ہیں، ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اقتدار کے لئے نفرت کی سیاست کررہے ہیں اس کے لئے ہمیں عام لوگوں کو بیدار کرنا ہوگا ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اس ملک میں صدیوں سے ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان جو اتحاد قائم ہے اسے ٹوٹنے نہ دیں، مسلمان ہندوؤں کی خوشی اورغم میں شامل ہوں ہندو بھائی مسلمانوں کی خوشی اور غم میں شامل ہوں اس سے ہی سماج اور معاشرے میں یکجہتی اور باہمی اتحاد کو فروغ دیا جاسکتا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ ہم مایوس نہیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جب لوگ بیدار ہوجائیں گے، نفرت ہارے گی اور محبت جیتے گی، واضح ہوکہ سداپور کا علاقہ کیرالہ کی سرحد پر واقع ہے، کیرالہ میں جب سیلاب آیا تھا تو کرناٹک کے ان علاقوں میں بھی تباہ کن سیلاب آیا تھا، کیرالہ میں سیلاب متاثرین کی باز آبادکاری کا کام دوسال پہلے ہی مکمل ہوگیا تھا لیکن سداپور میں زمین کے حصول میں کچھ پریشانی تھی اس لئے باز آبادکاری کے کام میں تاخیر ہوئی درمیان میں کورونا کی وباء آگئی اس سے تعمیر کا کام متاثر ہوا، تاہم جمعیۃ علماء کرناٹک کے ذمہ داران کی مسلسل کوششوں اور یہاں کے مسلمانوں کے تعاون کے نتیجہ میں یہ مشکل مرحلہ طے پا گیا، یہ مکانات چار سو اسکوائر فٹ پر مشتمل ہے اور ان کی تعمیر پر فی مکان تین لاکھ روپے (زمین کے علاوہ) لاگت آئی ہے، قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر کے سیلاب متاثرین کی باز آبادکاری مہم میں جمعیۃ علماء ہند نے  33  بے گھر ہوئے خاندانوں کی باز آبادکاری کے منصوبہ کوحتمی شکل دیدی ہے ان میں 18 غیر مسلم خاندان ہیں، یہاں ایک مکان کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ تقریبا چار لاکھ روپے ہے، سیلاب متاثرین کی اس باز آبادکاری مہم میں کرناٹک کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم سوسائٹی سداپور نے خاص طور سے ہر طرح کی مدد فراہم کی، مولانا مدنی نے اپنے خطاب میں ذاتی طورپر ان تمام لوگوں کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ انہیں اپنی دعاؤں سے بھی نوازا۔
فضل الرحمن قاسمی
پریس سکریٹری جمعیۃعلماء ہند: 9891961134

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages