جہیز کے ظالم عفریت نے ڈھائی ماہ کی دلہن کی جان لی. آخری ویڈیو، میں کہا-انہوں نے زہر کھلایا۔
19 سالہ پریا ، جس نے صرف ڈھائی ماہ قبل سات چکر لئے تھے ، اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ سنیچر کو کوٹا کے ایم بی ایس ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی ۔ موت سے پہلے پریا نے ایک ویڈیو بنائی اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بیان کیا۔ سسرال والوں کے ہر ایک ستم کا کالا چٹھا کھول دیا۔ الزام ہے کہ اسے جنگل میں لے جانے کے بعد سب سے پہلے اس کے کپڑے اتارے گئے۔ پھر اس کے پرائیویٹ پارٹ میں مرچ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ کسی طرح وہ وہاں سے بھاگ گئی۔
پریا کے والد بھیرو لال بھیلواڑہ پولیس لائن میں ہیڈ کانسٹیبل ہیں۔ بیٹی کی موت سے پہلے ویڈیو بنایا گیا ۔ پھر ہسپتال میں ہی گھر اہل خانہ کے ساتھ بات چیت کا بھی ایک ویڈیو بنایا گیا ۔ دونوں میں پریا نے کہا ہے کہ ساس سسر کے سامنے اس کے پورے کپڑے پھاڑ دیئے گئے اور زہر کھلایا گیا۔
اس کی شادی ڈھائی ماہ قبل جہاز پور قصبے کے پنڈیر گاؤں کے وکرم سے ہوئی تھی۔ باپ بھیرو لال نے شوہر ، ساس ، سسر ، بھابھی ، جیٹھانی اور دیگر سمیت سسرال والوں نے جہیز کے مطالبہ کو لے کر مار پیٹ کرنے اور زہر دے کر قتل کرنے کا الزام عائد کیا ۔ دوسری جانب پولیس اسے خودکشی قرار دے رہی ہے۔
اپنی ویڈیو وائرل کرتے ہوئے پریا نے سسرال والوں پر بری طرح سے زورکوب کرنے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ پریا نے مزید بتایا کہ پیٹنے کے بعد اس کے تمام کپڑے پھاڑ کر اس کے سسر کے سامنے لایا گیا۔ اس سے اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے بعد پریا کی دوسری ویڈیو گھر والوں نے ہسپتال کے بستر پر بنائی۔ اس میں پریا نے کہا تھا - مجھے زبردستی زہر کھلایا گیا۔ ویڈیو بنانے کے دوران ہی وہ بولتے بولتے ہخاموش ہو گئی۔
پریا کے والد بھیرولال نے بتایا کہ 5 لڑکیوں اور 2 لڑکوں میں سے پریا چھٹے نمبر کی تھی۔ اس کی شادی رواں سال 26 اپریل کو ہوئی تھی۔ شادی میں 4 تولہ سونا ، ٹی وی ، فریج ، ڈبل بیڈ سمیت گھریلو سامان دیا گیا۔ شادی کے 5-7 دن بعد سسرال والوں نے پریا کو مارنا شروع کر دیا, اور 6 لاکھ روپیوں کا مطالبہ کرنے لگے ۔ اس کے والد نے بیٹی پر تشدد کرنے کی شکایت باگور
تھانہ میں درج کرائی تھی۔
اس کے بعد بھی سسرال والے پریا کو مارتے رہے۔ اس حملے سے پریشان پریا کو جولائی میں اپنے میکے باگور بلالیا گیا۔ 18 جولائی کو پریا اپنے شوہر کی باتوں میں آکر دوبارہ سسرال چلی گئی۔ 19 جولائی سے پریا کے ساتھ دوبارہ وحشیانہ سلوک شروع ہوگیا۔ اس کے بعد پریا نے پنڈیر تھانے میں شکایت دی درج کرائی تھی ۔ صلح ہونے کے بعد پریا واپس سسرال چلی گئی۔
پریا کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو 22 جولائی کو جنگل میں لے جایا گیا۔ وہاں غیر اخلاقی حرکتیں کی گئیں۔ پریا نے کسی طرح بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ ساتھ ہی فون کر کے ساری باتیں بتائیں۔ تھوڑی دیر بعد کسی نے فون کیا اور بتایا کہ آپ کی بیٹی نے زہر کھا لیا ہے۔ اسے علاج کے لیے بھیلواڑہ لے جایا جا رہا ہے۔ پریا کو بھیلواڑہ لے جانے کے بجائے سسرال والے کوٹہ ایم بی ایس میں داخل کراکے چلے گئے۔ ایک دن پریا ہسپتال میں اکیلی رہی ، اور دوران علاج اس کی موت ہوگئی۔
پنڈیر پولیس اسٹیشن کے ہیڈ کانسٹیبل بھنورناتھ نے بتایا کہ 21 جولائی کو پریا پنڈیر بس اسٹینڈ پر تھی ۔ اطراف کے لوگوں نے بتایا کہ وہ زہر کھا رہی تھی۔ لوگوں نے اس کے ہاتھ سے گولیاں چھین کر اسے ہسپتال لے گئے۔ پھر کوٹہ لے کر آئے ۔ پریا ہسپتال میں بیان دینے کی حالت میں نہیں تھی۔ اس کی موت سنیچر کی صبح ہوئی ۔ میڈیکل بورڈ سے پوسٹ مارٹم کے بعد لاش وارثین کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اہل خانہ نے سسرال والوں پر جہیز کا مطالبہ کرنے کی شکایت درج کرائی ہے۔ تفتیش جاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں