فی زمانہ آزادی کی روش غلامانہ ذہنیت کی عکاس , آزادی کا مفہوم تیزی سے تبدیل ہورہا ہے !!
خیال اثر مالیگانوی
آزادی, آزادی اور آزادی کی رٹ لگانے والے کیا واقعی آزاد ہیں. آزاد دیس کے غلام ہندوستانی دو سو سالوں تک انگریزوں کے غلام رہے تھے. ما بعد آزادی 70 برسوں تک کانگریسی نظریات کے غلام رہے. اتنے سال تک دوسروں کی غلامی سے نبرد آزما رہنے کے بعد بھی ہم نے اپنی غلامانہ ذہنیت ترک نہیں کی ہے. آج 7 سال سے زائد کا عرصہ بیت رہا ہے. ہندوستان کی ہر قوم, ہر طبقہ فکر کے افراد جن سنگھ اور آر ایس ایس جیسی فسطائی تنظیموں کے عذاب سے نبرد آزما ہیں. آج کہنے کو تو ہم آزاد ہیں لیکن کیا ہمیں انگریزوں کی غلامی سے آزادی راس آئی ہے. کل ہم انگریزوں کے غلام تھے اور آج جن سنگھی نظریات کے. کبھی ہم امید و بیم لئے امریکہ کی جانب ملتفت نظر آتے ہیں کبھی اشتراکی ملک روس کی جانب. ایک جانب سے چین مسلسل ہماری سرحدوں کے درمیان آ کر در اندازی کررہا ہے تو دوسری جانب پاکستان شر انگیزی پر آمادہ ہے. فی زمانہ آزادی کا مفہوم بدل کر رہ گیا ہے. آزاد دیس کے آزاد باسی غلامی سے نبرد آزما رہتے ہوئے غلامی کے عادی ہو گئے ہیں. آج ہر فرد اپنی خود کی ضرورتوں کا غلام ہو کر رہ گیا ہے. کل تک ہم گورے انگریزوں کے غلام تھے جبکہ آج ہم پر ہندوستانی ہی حکومت کرتے ہوئے اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں. اعلی تعلیم پر پابندی, ملازمتوں کے حصول میں ناکامی, قوانین میں تبدیلی, اقلیتوں کے حقوق غصب کرنا, تجارت و معیشت کو مٹھی بھر سرمایہ دار عناصر کی دسترس میں دیتے ہوئے ان کا نجی کرن کردینا سرمایہ دارانہ نظام کے پھیلاؤ کا سبب ہے. ہر عوامی املاک کو سرمایہ داروں کے حوالے کرتے ہوئے تجارت و معیشت کو زندہ در گور کیا جارہا ہے. بینکوں کا دیوالیہ پن پونجی پتیوں کا کروڑہا روپیے بطور قرض لیتے ہوئے دیار غیر فرار ہوجانا اور گرفت میں آنے سے ناکامی ہندوستانی صاحبان اقتدار کے ذہنی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہے.
کسان طبقہ اپنے خلاف تشکیل شدہ زرعی قوانین کے خلاف مقابلہ آرائی پر آمادہ ہیں تو ہر ہندوستانی اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے حیران و پریشان ہے. ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جمہوری طرز حکومت بالکل اسی سونے کی چڑیا کی طرح عنقا و نایاب ہے جیسے دور برطانیہ میں اس کے بال و پر نوچ کر بے بال و پر بنا دیا گیا تھا. تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستانی خزانہ دو سو سالوں تک برطانوی سامراج کی تجوریوں میں اضافہ کا سبب بنتا رہا تھا آج وہی کام اڈانی, امبانی, مالیا ,للت مودی وغیرہ مل کر کررہے ہیں. کل تک ہندوستان کے کھلیانوں میں گندم کی ک کشت ریزی کی جاتی رہی تھی جبکہ آج ہندوستانی کھیتوں میں بھوک اور افلاس کی کاشت کاری کی جارہی ہے. ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنا خون بہانے والے شہیدوں کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے.جن افراد نے آزادی کی راہ میں مٹی کا ایک چراغ بھی جلایا نہ تھا انھیں مثل ماہ و خورشید آزاد ہندوستان کے افق پر سرخیل آزادی کی مانند ابھارا جارہا ہے. فی زمانہ آزادی کی روش غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہوتی جارہی ہے.ذات دھرم کے جھگڑے ہوں یا برادری واد,مندر مسجد کا تنازعہ سر چڑھ کر بول رہا ہے کل تک باہم شیر و شکر کی طرح رہنے والی قومیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی بنی ہوئی ہیں. چہار سمت نفرت کا الاؤ دہک رہا ہے. سچی تاریخ کے اوراق قصہ پارینہ بنانے کی کوشش جاری ہے. آزاد ہندوستان کی ہر شئے کا نجی کرن کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو عروج دیا جارہا ہے. آج کے نامساعد حالات گواہی دے رہے ہیں کہ ہم کل تک تاج برطانیہ کی غلامی پر مجبور تھے جبکہ آج اسی ذہنیت کے حامل سرمایہ داروں کی غلامی پر مجبور کئے جارہے ہیں. وہ وقت ماضی کے حوالوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے جب آزادی کی جئے جئے کار کرتے ہوئے فلک شگاف نعرے لگائے جاتے تھے کہ "وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہو "بدلتے زمانوں نے مذکورہ نعرے کا انداز بدل دیا ہے. آج ایک دوسرے کے خلاف دل آزاری پر مبنی اور ایک دوسرے کی تضحیک پر آمادہ سماج و معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے. ہمدردی اور غمگساری کے سارے جذبوں کو سرد کردیا گیا ہے. آج کے نامساعد حالات میں آنکھیں آہن پوش ہوئی ہیں اور خون جگر برفاب بنا ہے. رات کے برگزیدہ دامن میں ستاروں کی جھلملاتی ہوئی بستیاں تاریکی کے دامن میں مدغم ہوتی جارہی ہیں. آزادی کے لئے سر کٹانے والوں کو گمنامی کے اندھیروں میں گم کیا جارہا ہے. ہمالیہ کی بلند بالا چوٹیاں ہوں یا برف پوش وادیاں خون ناحق سے لالہ زار ہوتی جارہی ہیں. کشمیر کا خصوصی درجہ 370 آرٹیکل مسترد کرتے ہوئے کشمیریوں کی خصوصی مراعات یکسر ختم کردی گئیں ہیں. اب نہ تو مہاتما گاندھی رہے نہ سرحدی گاندھی نہ ہی چل چل رے نوجوان والے نیتا جی رہے, نہ ہی گنگا جمنی تہذیب کے علم برداران علی برادران, حسرت موہانی اور مولانا آزاد رہے. آج ان کے سر پر آزادی کی دستار باندھی جارہی ہے جنھوں نے کبھی بھی اپنے صدر دفتر پر ترنگا لہرانے کی جرات نہیں کی تھی. بحر عرب میں 30 ہزار کروڑ کے بےجا اطراف سے بلند بالا مجسمہ بنا لینا آسان سہی لیکن وطن کی حرمت پر اپنے سر کٹا دینے والے جیالے شہیدان آزادی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کر دینا ممکن نہ سہی لیکن نا ممکن بھی نہیں ہے. اور جب تک اس نا ممکن کو ممکن کے درجہ تک پہنچایا نہیں جائے گا آزادی کے صحیح مفہوم کی ادائیگی نہیں ہو سکتی.دنیا جہان کی ناانصافی کے باوجود ہندوستانی مسلمان اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے ہر ناانصافی کے خلاف یہی کہہ گا کہ
نثار تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے, جسم و جاں بچا کے چلے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں