src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> سلطان سبحانی ___افسانہ نگاری کا سب سے روشن چہرہ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 15 اگست، 2021

سلطان سبحانی ___افسانہ نگاری کا سب سے روشن چہرہ

 

سلطان سبحانی ___افسانہ نگاری کا سب سے روشن چہرہ


شگفتہ سبحانی

افسانوں میں روشن ہوں میں ہر سمت درخشاں 
رخشندہ کئی مجھ سے ہیں  ماہتاب ِ جہاں اور 

(ماضی کے جھروکوں سے) پاور لوم کے گنگناتے تانے بانے میں دو چمکتی روشن براؤن آنکھیں اور خوبصورت سیاہ گھنے بالوں میں سرخ و سپید چہرہ روشن ہے ، 
سفیدبراق لباس میں بید کی لکڑی کو سفید پتھر پر گِھس کر بے مثال فن خطاطی کرنے والا وہ نوجوان، جس کی قوت بصیرت عام لوگوں سے کہیں زیادہ پرے رہی ہے، جس نے افسانہ نگاری کو نا صرف ایک عروج بخشا بلکہ تاعمر اردو ادب کی خدمت کی اور شہر مالیگاؤں کا نام ادبی سطح پر بہت پختگی کے ساتھ روشن کیا 

اپنےجھکے ہوۓ سر سے رنگین ساڑیوں کی دیدہ زیب سنہری بارڈر بُنتے وقت، اس شخص کے ذہن پر بیسیوں رنگ کینویس پر بکھرے ہوتے 
کبھی قرمزی، کبھی زعفرانی کبھی پکھراج کبھی زمرد کے رنگ، ذہن سے نکل کر مہارت کے ساتھ بلیک شیٹ پر اتارے جاتے 
اور کتابوں کے بے شمار ٹائٹل بناۓ جاتے 
 
کبھی معزز قلم کو دل کے نہاں خانوں سے سینچ کر قلمی اخبار نکالا جاتا، کبھی "ہم زباں" تو کہیں "نشانات" نے دھوم مچارکھی تھی،
اپنے اندر ایک عہد سمیٹے ہوۓ شخص کی بے انتہا خوبصورت موتی جیسی تحریروں کا ایک ے
زمانہ شروع سے  عاشق رہا ہے،
 کبھی بائیں پسلی کی   قسطیں شائع ہوتیں، کبھی بڑھیا کہتی ہے آکاشوانی سے نشر کیا جاتا، ، 
کبھی چربی کھریا بناتے وقت افسانوں کے پلاٹ سلیٹ پر رقم کئے جاتے، مدھر آواز میں غلام علی کی غزل غضب کا ارتعاش  پیدا کرتی... گنگناہٹ ہوتی  "اپنی دھُن میں رہتا ہوں،، میں بھی تیرے جیسا ہوں" 
کبھی بھکو چوک پر مرحوم کلیم چاچا کے پان اسٹال سے اپنی چھوٹی چھوٹی  بچیوں کیلئے میٹھا پان بنواتے وقت شعر کی گرہ دماغ میں گردش کرتی، قلم ہاتھ میں آتا اور بائیں جیب سے ایک عدد مِنی ڈائری نکال کر اس پر دو کراس لگاۓ جاتے، مصرع نوٹ ہوتا 
اور گھر آکر اس کراس سے غزل تک کا سفر طے کیا جاتا،. 

بدحال رہ کے جینا ہمیں کب پسند تھا 
اچھا کیا کہ نام ہی سلطان رکھ لیا

محمد سلطان جن کا اصل نام  سلطان ابن عبدالسبحان رہا جو آگے چل کر سلطان سبحانی کے نام سے مشہور ہوئے بچپن سے ہی ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور کچھ عرصہ میں شفقت پدری سے بھی محروم ہوگئے اور یتیمی کی بے مروت دھوپ نے وقت سے بہت پہلے براؤن آنکھوں میں سنجیدگی بھردی، 
قہقہوں کی جگہ مسکرانے پر اکتفا کیا جاتا، سادگی ایسی کہ جو دیکھے دیکھتا رہ جائے، لکھنے کی قوت اور قوت حافظہ بے مثال رہا
مطالعہ کا بے انتہا شوق رہا کبھی علی سردار جعفری، کبھی امیر خسرو، کبھی مرزا غالب، کبھی مجروح، کبھی کلیات فیض کے مطالعے دراز ہوتے کہیں کرشن چندر، کبھی منٹو کبھی، اظہار اثر پر اظہار خیال قلمبند ہوتے وقت پر لگا کر اڑتا گیاتحریروں میں سادگی کی جگہ، جاذبیت نے لے لی، مقامی اخبارات، کے علاوہ بیرون شہر کے ادبی جرائد و رسائل  میں شائع ہونے کے سلسلے بہت لمبا عرصہ دراز رہے ادبی نادر شخصیات سے خط و کتابت کے سلسلے رواں دواں رہے 
عمر کی سنجیدگی نے ڈیرہ ڈالا تو قلم میں روانی کے ساتھ ساتھ اصلاحی و انقلابی  تحریریں منظر عام پر آنے لگیں، کبھی جُنوں کی وادیوں نے گھیرا تو "حکم نامہ" تکمیل پایا ، کبھی ظلم کے خلاف "چابک بدست امام" نے زلزلہ بپا گیا، حقائق پر موجود افسانہ کی شہرت سے پریشان ہوکر پاکستان میں وہ افسانہ  ضبط کیا گیا اور پریس کو تالہ لگایا گیا 
کبھی تحریریں کوڑا دان کی نظر بھی کی جاتی، کبھی مونگ پھلی کھاتے وقت، سردی میں براؤن کوٹ کے کالر کھڑے کرتے ہوئے، گھر کے آتش دان کی نذر تحریریں کی جاتیں، اور ان پر کام کر کے دوبارہ سے منجمد تحریروں کو جامع اور شاہکار بنایا جاتا 

دوستوں کا حلقہ بے انتہا دراز رہا، سادگی پسند اور حساس طبیعت نے ہمیشہ حقائق پر مبنی تحریریں نا صرف منظر عام پر لائیں بلکہ پوری شدت سے اپنی قلمی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ، جنگ و جدل، ظلم و بربریت، نا انتشار و نا اتفاقی کے خلاف لکھا گیا 
بھرشٹاچار اور منافقوں کی درجہ بندی کر کے اپنی علمی قوت سے بے شمار ایسے افسانے، کہانیاں، ناول اور تنقیدی مضامین منظر عام پر لائے گئے جس نے ظالموں کی نا صرف نیندیں بلکہ دھجیاں اڑادیں بلکہ ایک عہد کو اس بات کا احساس دلایا گیا کہ کیا ہونا چاہئے تھا  اور سماج میں کیا ہورہا ہے 
کس درجہ نا انصافی نے ڈیرہ جما رکھا ہے، کبھی خودکشی، کبھی معاشرہ کشی جیسے اہم موضوعات پر خطاب لکھے گئے 
کبھی مایوسی کے اندھیروں کو چیرنے کیلئے اساطیری کردار اعظم کو اپنے دل کے نہاں خانوں سے سینچ کر تخلیق کیا گیا
ادب نواز اور بے انتہا ادب دار شخص سلطان سبحانی کے دوستوں کا حلقہ وسیع رہا 
بیرون شہر سے مہمانان کا سلسلہ دراز رہتا، کبھی بے شمار جگہ مدعو کئے جاتے 
تحریری انقلاب لانے کے باوجود  ایک انجانی اداسی رگ و پے میں اتری رہتی،جو ہر نئے دن ایک نئی تخلیق، ایک نیا جملہ ایک نیا مرکزی کردار پیدا کرواتی اور چلتے پھرتے ایسے نادر نمونوں کو شاہکار بناتی جن کی مثال ملنا نا ممکن ہے 
بڑھیا کہتی ہے کا کردار ، اس کا منہ بولتا شاہکار ہے اسی صورت شام کی ٹہنی کا پھول، حسن کوزہ گر، اور ایٹمی طاقتوں سے خوفزدہ نا ہونے والا اعظم انسانی کردار کی عظمت کا پرتو رہا ہے 

 ذہانت بلا کی رہی ہے، ایک بار میں چیزیں، لوگوں کے نام، مناظر، قصبے، قصے ، سابقے، مصرعے، قافیے یاد رہ جاتے
کتابوں کی الماری سے کتب کی ترتیب یاد رہتی،

دوستوں کے قہقے اور بھکو چوک کی چاۓ بے انتہا پسند رہی، سیاہ روشنائی اور سفید رنگ، موتیا کی بھینی  پسندیدہ خوشبو اور غزلیات کے نادر ذخائر کے ساتھ زندگی آگے بڑھتی رہی
کبھی کبھی لکھنے پر خزاں چھائی رہتی، کبھی سال بھر نا لکھا گیا 
کبھی کئی کئی افسانے،، کہانیاں غزلیں، نظمیں ایکساتھ شائع ہوجاتیں

کسی جگہ حساسیت کی بنا پر لکھا جاتا
ہمیں وہ ہیں کہ جن کو زخم دے کر 
بہت حساس ہوجاتے ہیں پتھر 

کہیں لکھا گیا 
چاندنی کے ہیں یہ سارے گھر سونے کے ہیں سب آدمی 
اس شہر کی مٹی کا فن بدلا ہوا لگتا ہے کیوں 

کسی جگہ درد کو تحریر کیا گیا

کیسے کیسے آئے تھپیڑے کیا کیا نا کہرام مچے 
سب کو پتہ ہے غزلیں کہہ کر ہم کتنے بدنام ہوئے


یہ عہد جو بھی ہے مجھ سے بہت خفا تو نہیں 
یہ چھین سکتا ہے سب کچھ مری انا تو نہیں 

اک ایسا بحر انا گرم مری ذات میں تھا، 
کہ اس کو روبرو کرنا بھی ممکنات میں تھا 

عظیم ہونے کا دعوٰی یہاں تمہیں کو نہیں
جدھر بھی آنکھ اٹھاؤ لہولہان ہیں سب

دس کتابوں کے مصنف 
اور درجنوں افسانہ کے خالق نے وقت کے بے رحم ہاتھوں کبھی مجبور ہونا نہیں سیکھا
علم کی پیاس نے ہمیشہ ہی مطالعہ میں سرگرداں رکھا
ایسا کوئی دن نہیں ہوتا جب علمی جرائد، رسالہ یا کتب کے مطالعے نا ہوتے
رنگوں سے غضب کی الفت نے بے شمار میگزین کے کور پیج بنوا ڈالے،، قابل ذکر میگزین، ماہ نامہ شاعر، ہم زباں، نشانات، عید نمبرز کے علاوہ بیرون ملک اخبار  "راوی" کے سرورق نے بےشمار بین الاقوامی شہرت بٹوری

اپنی تمام کتابوں کے سرورق خود ہی ذیرائن کئے جاتے بلکہ رنگوں سے کھیلتے کھیلتے کبھی، "گل فروش اٹھو" تحریر ہوجاتا، "کبھی راستے مسافر ہیں" تکمیل پاجاتا،
بچوں سے بے انتہا رغبت اور محبت نے بچوں کی دنیا میں قدم رکھوایا تب ادب اطفال پر کتابوں اور تحریروں کے سلسلے دراز ہوۓ، جن کے نتائج" گولر کے پھول،" آبنوسی ہار، "مافوق الفطرت" کی صورت منظر عام پر شائع ہوکر آئے

محترم سلطان سبحانی  ہمیشہ ترقی پسند تحریک سے منسلک رہے ہیں
آپ کی تحریروں میں شگفتگی کے ساتھ پختگی، اصلاح، تنقید اور حساسیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے
درج ذیل تصانیف قابل ذکر رہیں
کانپتی کرنیں پہلا افسانہ
پہلی کہانی، چور کی غلط فہمی
اجنبی نگاہیں
شاعری کی دوکان
راستے بھی چلتے ہیں
پت جھڑ کی خوشبو /گنج رواں
حکم نامہ، میرا کھویا ہوا ہاتھ
بدن گشت بادبان
شام کی ٹہنی کا پھول
مافوق الفطرت
گولر کا پھول
شمائلہ
سکۂ خاک
کہانیوں کی کہکشاں
اندھے سانپ والا
اور آبنوسی ہار

پاکستان میں ضبط شدہ افسانہ چابک بدست امام
ادارت، نشانات، ہم زباں

آئندہ تصانیف
موج ہوا پیچاں

اور درجنوں ایوارڈ کے حقدار رہے
جن میں کرشن چندر ایوارڈ قابل ذکر ہے

یہ عہد کوئی ہے پھول جنگل، بہت حسیں ہے تمام منظر
مگر ہمارے لہو کے چھینٹے، کہاں اڑیں گے پتہ نہیں ہے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages