src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> دلیپ کمار دنیا کے لیے ایک اداکار تھے لیکن پسماندہ مسلم او بی سی سماج کے لیے مسیحا تھے۔ شبیر احمد انصاری - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 7 جولائی، 2021

دلیپ کمار دنیا کے لیے ایک اداکار تھے لیکن پسماندہ مسلم او بی سی سماج کے لیے مسیحا تھے۔ شبیر احمد انصاری

    

دلیپ کمار دنیا کے لیے ایک اداکار تھے لیکن پسماندہ مسلم او بی سی سماج کے لیے مسیحا تھے۔ شبیر احمد انصاری



اورنگ آباد (نامہ نگار) شہنشاہ جذبات دلیپ کمارکے انتقال پر آل انڈیامسلم او بی سی آرگنائزیشن کے قومی صدر شبیراحمد انصاری نے کہا کہ بلاشبہ دلیپ کمار ایک عظیم فن کار تھے،فلمی دنیامیں ان کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ساری دنیا ان کو ایک فلمی اداکار کی حیثیت سے جانتی ہے یہ تصویر کا یہ رخ ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہیکہ وہ مسلم پسماندہ طبقات کے عظیم رہنما و مسیحا تھے۔ انصاری نے کہا کہ جب پورے ملک میں میری مخالفت کی جارہی تھی اس وقت دلیپ کمار صاحب نے ہمارا ساتھ دیا اور اٹھارہ سال آل انڈیامسلم او بی سی آرگنائزیشن ان کی سرپرستی میں چلتی رہی ملک میں جہاں بھی کہیں مسلم پسماندہ طبقات کے اجلاس ہوتے اس میں شریک ہوتے جبکہ یہ ان کی شہرت،مقبولیت ومصروفیت کا دورتھا ان کا ایک ایک منٹ قیمتی تھا ایسے وقت میں وہ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑکرغریب طبقات کے حقوق کے لیے میدان میں آتے تھے۔ 


  8/جنوری 1995کو حج ہاؤس ممبئی میں جلسہ عام میں دلیپ کمار کے ساتھ اس وقت کے مرکزی وزیر سبودھ کانت سہائے،رام ولاس پاسوان وغیر ہ شریک تھے۔ 12/ اگست 1997 میں قیصر باغ بارہ دری لکھنؤ کے جلسہ عام میں ظفرعلی نقوی،اطہرنبی،وزیر بنیاد حسین انصاری، وزیر گپتا اور حسن کمال موجودتھے۔ 
13/جون 1998 کو اورنگ آباد کے ایک جلسہ عام مشہور فلمی اداکار جانی واکر،وزیر ریاستی آندھرا بشیر الدین بابو خان، بابو بھائی قریشی،پروفیسر کلانی موجود تھے۔  14/ جون 1998کو ضلع جالنہ کے جلسہ عام میں آندھرا کے ریاستی وزیر بشیر الدین بابو خان، جانی واکر،حسن کمال موجودتھے۔ 
 اورنگ آباد میں جب میرا عوامی استقبال رکھا گیا تو وہ اس میں شرکت کے لیے اورنگ آباد آئے اور یہاں مسلم پسماندہ طبقات کے حقوق پر جو تقریر کی وہ تاریخی تقریر تھی وہ یہاں سے جالنہ گئے اور وہاں بھی جلسہ عام سے خطاب کیااسی طرح دلیپ کمار لکھنؤ اور ملک کے کئی اہم شہروں میں جلسوں میں شرکت کی۔آل انڈیا او بی سی آرگنائزیشن تحریک کو بڑی تقویت ملی اور سماجی و سیاسی اعتبار سے وہ اتنی مضبوط ہوگئی کہ کانگریس او بی سی آرگنائزیشن کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہوگئی اور مہاراشٹراسمبلی الیکشن کی پانچ نشستیں او بی سی آرگنائزیشن مختص کی ان امیدواروں کے انتحابی تشہیر کے لیے دلیپ کمار بنفس نفیس انتخابی جلسوں میں شرکت کی اور ان پانچ سیٹوں میں تین سیٹوں پر اوبی سی کے امیدواروں کو کامیابی ملی جبکہ دیگر دوامیدوار دوسرے نمبر پررہے۔
  2000؁ء میں کانگریس پارٹی نے ان کو راجیہ سبھا کے لیے منتخب کیا۔ مسلم پسماندہ برادریوں کو حق دلانے کے لیے وہ ہمیشہ منترالیہ میں میٹنگ کے لیے حاضر رہتے تھے جس کی وجہ سے G.Rنکالنے میں بڑی سہولت ہوئی جس کی وجہ سے مہاراشٹرمیں سیاسی طور پسماندہ مسلمان مضبوط ہوا اور اس کی وجہ مہاراشٹرمیں کتنی ہی مسلم میئر بنے، ضلع پریشد صدر،نگر پالیکاصدر بنے،کارپوریٹرس، سرپنچ بنے سیاسی کے ساتھ تعلیمی میدان میں مسلم پسماندہ طبقات کو بہت فائدہ پہنچا۔ آئی ایس، آئی پی ایس، ججس،ڈاکٹر،انجنیئرس بلکہ تمام شعبہ جات میں مسلمانوں کو بھر پورنمائندگی ملی۔اسی کے ساتھ معاشی طور پراو بی سی کارپورشنو ں سے فائدہ پہنچا۔
  آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن ہمیشہ اپنے اس عظیم رہنمااور مسیحاکویاد رکھے گی اور ان کے احسانات سے کبھی دستبردار نہیں ہوگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages