src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعرات، 3 جون، 2021

رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو


رلاتا ہے تیرا نظارہ اے

 ہندوستاں مجھ کو 


کووڈ 19 یعنی وبائے مہلک کورونا کے خوف گھروں میں قید زندگی ،انفیکشن  کے ڈر سے ماسک لگے چہرے ، کرونا  اموات کے خوف سے وحشت زدہ رشتے، سنسان تعلیم گاہیں ،آباد شمسان اور قبرستان ،ندیون میں تیرتی لاشیں ،ریت میں چھپائے گئے لاشے، انسانی لاشوں کو نوچتے ہوے کتے گدھ،چیل اور کووں کی خوراک بنتی بے گورو کفن لاشیں،   بیکاری اوربے رو زگار ری سے جوجھتے غریب لوگ ،  کشمیر کی گھا ٹی  میں جوان بیٹوں کو تلاش کرتی مائیں، ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں  کا گلا گھونٹی ہوئ سرکار ، خدا کے گھر کو شہید کرتے ہوے پولس اہلکار اور بے بسی سے سب کچھ دیکھتے اور ظلم سہتے ہوے مسلمان ،سمندروں آتے طوفان ،ایسے حالات میں اپنے پیارے وطن ہندوستان کی حالت دیکھ  کر کون ہوگا جو جسے رونا نہ آے گا۔علامہ اقبال کے مشہور و معروف اردو شعری مجموعہ بانگ درا میں  ایک مشہور اور طویل نظم ہے تصویر درد جو 69 بند پر مشتمل ہے   جس کا ہر شعر ہر بند  وطن کی محبت،فکر  اور اس کی تکلیف کے درد میں ڈوبا ہوا ہے ۔اس نظم کا ہر بند موجودہ وقت کے پس منظر میں حرف حرف سچ ہے ،ملک کے جو حالات ہیں،زعفرانی رنگ لباس پہننے والے تعصب اور نفرت  کی زبان بولنے والے حق کے دشمن، اسلام کے دشمن، انسانیت کے دشمن لوگ ایک خطرناک مقصد کے تحت کمل کے پھول کو اپنا نشان بنا کر بھارت جیسے جمہوری ملک جس کا آئین بھارت کے ہر انسان کو   مذہب ، قوم ، زبان، رنگ،نسل  کو برابر حقوق عطا کرتا   ہے، نظام زندگی کے لئے ٹکڑوں میں ٹکڑوں تقسیم سماج بربریت اور  ابتریت کا شکار ہوگیا  اقلیتوں اور دلتوں پر ظلم کا گراف د نو ں دن بڑھتا ہی جا رہا ہے ظلم کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے جا رہے ہیں، ہر طرف ظلم ہی ظلم ہے  ،ایک جمہوری ملک میں  جمہوری حکومت کا جو آمرانہ رویہ ہے وہ قدم قدم پر جرمنی کے ہٹلر کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ یہ حکومت اسلام دشمن ہی نہیں انسانیت دشمن بھی ہے اس حکومت کو ملک میں امن اور چین اچھا نہیں لگتا جب سے بی جے پی نے بھارت کی سیاست میں قدم رکھا ہے ظلم اور جبر کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے ہیں، بابری مسجد کی شہادت ہو یا گجرات میں مسلم لوگوں کا قتل عام ،یا پھر دلی کی جامعہ اسلامیہ یا جے این میں ہوے ظلم جبر اور شہر مظفر پور کے فسادات ہوں،2014 سے ماب لنچنگ میں جس طرح سے تیزی آئ ہے محمد اخلاق سے لیکرہریانہ کے  آصف تک ایک طویل فہرست ہے ان بے گناہوں کی جن کا کوئ قصور نہیں تھا ان کو  گو رکچھا کےنام پر بھیڑ نے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا، کیا اس طرح کی واردتیں بڑھی ہوئ آبادی کی وجہ سے ہیں؟ نہیں دلوں میں نفرتوں کے بیج بونے کی وجہ سے ہیں جو نفرت اور ہندتوا کا بیج آر ایس ایس کے لوگوں نے بویا تھا اب وہ تناور درخت بن چکا ہے اور اس ظلم اور  نفرت کے درختوں کو ہمارے بھارت کی گندی سیاست مسلسل  خوراک دے رہی ہے۔6 دسمبر 1992 کی وہ تاریخ جس دن آر ایس ایس کے  رام بھکتوں نے   بابری مسجد کو شہید کر ڈالا اور ان میں سے ایک رام سیوک کو بھی سزا نہیں ہوئ حوصلے تو بلند ہونے تھے ،اس کے بعد ممبئ کا بم بلاسٹ اور رد عمل کے طور پر  مسلمانوں کو چن چن کر قتل کرنا ، انسانی خون کی ہولی کھیلی گئ وہ بھی زعفرانیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے کافی تھی ،اس کے بعد سازشوں  کا ایک نیا جال گودھرا کانڈ جان بوجھ کر کرایا گیا اور پھر ردعمل کے طور پر گجرات کے اندر بے گناہ لوگوں کو تڑپا تڑپا کر مارا گیا کہیں  خندق کھود زندہ انسانوں کو بے گور و کفن زندہ دفن کر دیا گیا کہیں گھروں میں پانی بھر کر بجلی کے کرنٹ ڈال دئے گئے، سفاکیت کی انتہا کر دی گئ ،اس وقت بھی مرکز میں بی جے پی کے قد آور رہنما اٹل وہاری واج پے ئ تھے اور اور گجرات میں ہمارے موجودہ وزیر اعظم نریندر بھائ مودی وزیر اعلی  مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر اپنا راج دھرم نبھا رہے تھے ۔ زعفرانی لباس والوں کے اصولوں ں میں ہے جو جتنا زیادہ مسلمانوں پر ظلم کرے گا اس کو اتنا ہی بڑا عہدہ ملے گا ،مودی جی  نے اپنا راج دھرم نبھایا ان کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ،اتر پردیش میں یوگی آدمیہ ناتھ بھی بہت زور شور اور لگن کے ساتھ اپنا راج دھرم نبھا رہے ہیں یقینا آر ایس ایس کے لوگ یوگی کو اب وزیر اعظم بنانا چاہیں گے ۔اگر مرکز میں کانگریس نے اپنی ساکھ نہ کھوئ ہوتی ،کا نگریس پر پورے ملک کی عوام  یقین کرتی تھی مگر بھلا ہو اس سیاست کا جو ہر ایک کو برباد کر دیتی ہے، سازشوں ،تعصب،فرقہ پسندی اور عیاریت  کے لئے علامہ اقبال  تصویر درد میں ایک بند لکھا ہے،
              شجر ہے فرقہ آرائ تعصب ہے ثمر اس کا
                    یہ وہ پھل ہے جو جنت سے نکلواتا  ہے آدم کو
ایک بار کرو تو غلطی ہوتی ہے جسے معاف کیا جاسکتا ہے مگر بار بار غلطی گناہ بن جاتی ہے ، ایک بار بی جے پی کو لے آنا ایک تجرباتی غلطی تھی جسے دوبارہ دہرایا گیا اور دوبارہ بی جے پی کو ووٹ دینا  اور مودی جی کا وزیر اعظم بننا کسی گناہ عظیم سے کم نہیں، اس لئے ہم سب اسی گناہ کبیرہ کی سزا بھگت رہے ہیں، ظالم اور جابر حکمران بھی عذاب الہی ہے ۔ماب لنچنگ کے کیس 2014 میں صرف تین تھے مگر مودی صاحب کے بیٹھتے ہی  2015 میں چار گنا زیادہ یعنی بارہ 2016 میں 12 کا دوگنا یعنی چوبیس اور 2016 میں چوبیس سے بڑھکر 38 کیس ہو گئے  اور اب ڈیڑھ سو سے زیادہ کیس ہوچکے جس میں 90 فیصد مسلمان گورکچھا کے نام پر مار دئے گئے ،یعنی ہر سال اضافہ کاش ایسا ہی اضافہ ملک کی خوشحالی میں، ملک کی دولت میں بھی ہوا ہوتا مگر جب قاتل اور ظالم جھوٹا ،مکار ،اور درندہ صفت انسان حکمراں بنادیا جاے تو بکرے کی ماں کب خیر منائے گی، امن کی فاختہ تو زخمی ہوگی ہی ،پہلے  بابری مسجد کے وجود کے خلاف جھوٹا فیصلہ دے کر انصاف کی دیوی کو شرمسار کیا گیا پھر  بابری مسجد شہید کرنے والے مجرموں  کو  باعزت برطرف کر دیا گیا ان مجرموں کا سینہ 56 انچ کا ہوگیا ،اس کے بعد کشمیر سے دفعہ 370 ختم کرکے کشمیر کے لوگوں کو ان کے ہی وطن میں ان کو قیدی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا ،اس کے این آر سی، سی اے اے جیسے سیاہ قانون کا نفاذ جس نے بھارت کے آئین کے جسم کو ہی نہیں آئیں کی روح کو بھی زخمی کیا اور پھر 26 فروری 2019 کا وہ سیاہ دن جب امریکہ کا ایک ظالم سفاک بد کردار صدر بھارت کا مہمان بنا اس کے استقبال میں ملک کے  غریبوں کو چھپانے کے لئے ایک اونچی لمبی دیوار تعمیر کرادی وزیر اعظم کو یاد نہیں رہا ہوگا کہ کچھ سالوں پہلے شاید 2009  یا 2008 میں یہاں کی غربت اور  جھونپڑی زدہ زنگی پر بنی فلم سلم ڈاگ کو فلمی دنیا کا بین الاقوامی آسکر  اعزاز مل چکا ہے ۔ امریکی صدر   کی  مہمان نوازی اور چراغاں کے لئے دلی کو نذر  آتش کرادیا اور انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے ۔ کتنی تعریف کروں وزیر اعظم کے کارناموں کی اب کشمیر کےبعد لکش دیب پر نشانہ لگایا ہے ۔آگے کے نام پر ہزاروں بے گناہوں کو جے شری رام کے نعرے لگانے والوں نے مارڈالا آگے کے گوشت کے نام انسانوں کے خون بہاڈالے یہ لوگ آگے کو جانور نہیں انسانوں کی ماں جمنی کہتے ہیں اور انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں اور دلتوں کو انسان نہیں جانور سمجھتے ہیں یہی سلوک انگریز بھارت کے لوگوں کے ساتھ کیا کرتے تھے گاندھی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا کیا آپ کو یاد نہیں بھیج راؤ امبیڈکر کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھے گئے کیا لوگوں نے بھلا دیا ؟ دراصل یہ بی جے پی حکومت انسانیت کی دشمن ہے دنیا کا کون ماہر طب شراب نوشی کو مفید کہتا ہے ؟ لکش د یپ  میں صدیوں   شراب ممنوع ہے تو ظاہر ہے بیماری بھی کم ہوگی جرائم بھی کم ہونگے سماج بھی ساتھ ستھرا ہوگا کیونکہ سب جانتے نشہ بیماریوں اور گناہوں اور جنم دیتا ہے ،اور بی جے پی حکومت تو صاف ستھرا سماج چاہتی ہی نہیں، اب انگریزوں کی ہڑپ نیتی بی جے پی عمل میں لا رہی ہے ،نسل کشی کا قانون بھی جمہوریت اور انسانیت کے ساتھ اسلام دشمن ہے ،ہم بی جے پی کے ایک ایک شیطانی عمل کو دیکھ رہے ہیں، اور اس کے خلاف چند سطریں لکھکر چند جملے بول کر اپنے آپ کو ظالموں کی فہرست  سے باہر کر لیتے ہیں، ہم سب کب تک تماشائی بنے رہیں گے؟ ،اب ظالم حکومت کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کا لائحہ عمل تیار کریں ۔جس طرح بنگال کی تمام سیاسی پارٹیوں نے ممتا بنرجی کو طاقت بخشی ہے امید کرتی ہوں کہ اتر پردیش کی سیاسی پارٹیاں بھی  من و تو کا فرق  
     مٹا کر اپنے بارے سوچنے کے بجاے ملک اور عوام کے بارے سوچیں گی اپنی  آپسی   نا اتفاقیوں اور جھگڑوں کو بھلا کر صرف اور صرف ملک اور عوام کے بارے میں سوچیں گی تو اس تعصب اور نفرت بھرے بی بے پی کے درخت کو اکھاڑ پھینکیں گی ۔کورونا صرف وبا ہی نہیں ہے یہ عذاب الہی ہے ۔ لاکھوں لوگ حکومت کی بے حسی کے شکار ہوگئے دواؤں کی کالا بازاری ، اسپتالوں کی کمی ،آکسیجن کی کمی ، وینٹیلیٹر زکی کمی ،ویکسین کی کمی،روزگار کی کمی، سازشوں کے ہر طرف جال ہی جال ہیں  ہر طرف بد امنی ہے جیسے جنگل راج ہو ہر طرف لوٹ کھسوٹ مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے انسان کی شکل میں درندہ ہر شعبہ میں موجود ہیں شاید انگریزی حکومت نے بھارت کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہوگا جتنا ہمارے ملک کے رہنماؤں نے ملک کو نقصان پہنچا یا ہے سچ یہ ہے کہ اب ہمارا    ملک بھارت  انقلاب چاہتا ہے ۔اسی دن کے لئے اقبال نے کہا تھا
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں ہیں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

ڈاکٹر کہکشاں عرفان الہ آباد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages