شاہجہاں پور کی 10سالہ
ماہی کا یہ عمل آپ کے ہوش
اڑا کر رکھ دے گا .
کورونائی یلغار نے اچھے دنوں کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے. جس جانب دیکھیں آنسو بھری داستانیں بکھری پڑی ہیں. اچھے دنوں کی آس دلا کر پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی اور مزید ستم ڈھاتے ہوئے لاک ڈاؤں نے ہندوستانیوں کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی. مہنگائی کا بھوت سرعام ناچ رہا ہے. گھر گھر فاقہ مستی کی دھوم ہے. گلیوں گلیوں جنازے اٹھ رہے ہیں. سڑکوں, میدانوں پر چتائیں جلائی جارہی ہیں بلکہ اب تو ندیوں میں لاشیں بھی بہائی جارہی ہیں. تجارتی سرگرمیاں اور معیشت دن بدن دگر گوں ہوتی جارہی ہیں. امیر امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے تو غریب, غریب سے غریب تر ہوکر دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہا ہے. یہی حالات ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن آنکھوں کو نمناک کر دینے والا واقعہ شاہ جہاں پور کے گلیاروں سے نکل کر جب ہندوستان کی فضاؤں میں گونجا تو آنکھوں آنکھوں آنسوؤں کی برسات ہو گئی.
اصل واقعہ یہ ہے کہ شاہ جہاں پور میں تھانہ صدر بازار علاقے کے کھیرنی باغ کی ساکنہ ایک 10 سالہ معصوم بچی ماہی اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنی والدہ اور دادا دادی کی کفیل بن گئی. معصوم ماہی جس کی کھیلنے کودنے کی عمر ہے وہ سڑکوں پر ماسک اور کپڑے فروخت کر کے اپنے اہل خانہ کی کفالت کررہی ہیں . جب اس سے استفسار کیا گیا تو سننے والوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی. ماہی نے بتایا کہ وہ اپنے والدین اور دادا دادی کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتی ہے.
کورونائی عفریت نے اس کے والد کو چھین لیا ہے. ماہی نے بتایا کہ اس کے والد پیشے سے درزی کا کام کرتے ہوئے شرٹ کی سلائی کرتے تھے اور جب کورونا نے اس کے والد کو چھین لیا تو وہ بے یار و مدگار ہو کر فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے . ایسے کڑے وقت میں کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا. والد کی موت کے بعد اور اپنوں کے بے رخی اور پڑوسیوں کی بےاعتنائی اس خاندان کو توڑ کر رکھ دیا. اس گھر کا واحد کفیل کورونا کی وجہ سے لقمۂ اجل بن چکا تھا. بوڑھے دادا دادی اور ماں کے ساتھ یہ 10 سالہ بچی بھی بھوک مری کے دہانے پر پہنچ گئی. تب حالات کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائے ماہی نے سینہ سپر ہوکر اس کا مقابلہ کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا. وہ معصوم اور نازک سی بچی بھوک اور اپنے اہل خانہ کے درمیان سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ گئی اور سڑکوں پر ان کا سہارا بن کر نکل کھڑی ہوئی . والد کی سلائی مشین پر وہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ماسک تیار کرتے ہوئے سڑکوں پر فروخت کرکے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں جٹ گئی . پہلے تو اس نے اپنے والد کے ہاتھوں سلی ہوئی شرٹ کی فروختگی شروع کی اور جب وہ ذخیرہ ختم ہو گیا تو اس نے اپنے ننھے منے ہاتھوں اور کمزور و ناتواں جسم سے ماسک کی سلائی کرتے ہوئے سڑکوں پر انھیں فروخت کرتی رہی .جس دن کچھ آمدنی ہو جاتی بوڑھے دادا دادی اور اس کے پیٹ کا ایندھن کچھ حد تک سرد ہو جاتا لیکن جس دن آمدنی نہ ہوتی پیٹ کی آگ انھیں گھنٹوں نیند سے غافل کئے رکھتی تھی. بلند بانگ دعوے کرنے والی یوگی اور مودی سرکار نے اچھے دنوں کی آس دلاتے ہوئے نوبت یہاں تک لا دی ہے کہ افلاس و بھوک کا تانڈو رقص برہم میں مصروف ہے. بھوک کا یہ رقص ہیجانی اتنے شباب پر ہے کہ ایک کمزور و ناتواں 10 سالہ بچی ماہی اپنا اور اپنے دادا دادی کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں سڑکوں سڑکوں گھوم رہی ہے.رلا دینے یہ المیہ واحد المیہ نہیں بلکہ لاک ڈاؤن کی مصیبت نے ہندوستان بھر کے کوچہ کوچہ قریہ قریہ میں ایسی بے شمار داستانیں بکھیر رکھے ہیں. جب ماہی کا ویڈیو شوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو اس 10 سالہ بچی کی درد بھری داستان ان کر کچھ بیوپاری اس بچی کی مدد کے لئے آگے آئے ہیں. اس بچی کے لئے جب تک انتظامیہ کاغذی کاروائی میں مصروف ہے وہ لوگ اس خاندان کے لئے راشن کا بندوبست کریں گے. تاکہ یہ خاندان دو وقت کا کھانا سکون سے کھا سکیں. ماہی کی والدہ کے لئے بیوہ پینشن کا انتظام اور ماہی کے لئے وزیراعظم کی بال یوحنا اسکیم کے تحت جس میں بچی کو 4.ہزار روپیہ مہینہ دیا جاتا ہے. اس اسکیم میں فارم جمع کیا جائے گا. اس تمام کاروائی کے لئے اس خاندان کو کہیں دوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ انتظامیہ ماہی کے گھر جاکر تمام کاغذی کاروائی مکمل کریں گی .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں