مالیگاؤں کے سہارا ہاسپٹل میں مریض کی موت سے رشتہ دار مشتعل,
خاتون ڈاکٹر کے ساتھ بدتمزی اور مار دھاڑ کا الزام,
مالیگاؤں (نامہ نگار) کورونا وائرس کی پہلی لہر نے ہندوستان میں کم تباہی مچائی تھی کہ دوسری لہر نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑدیئے. مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں میں جہاں 2020 شہر کے معزز اکابرین کی قیمتی جانوں نذرانہ لے کر چلا گیا. کتنی ہی جانوں کا اس کوویڈ 19 میں اتلاف ہوا. اس وقت ایسا لگتا تھا کہ شہر خالی ہو جائے گا. اب جب کہ کورونا کی دوسری لہر پورے شباب پر ہیں. پورے مہاراشٹر میں ایک بار پھر سے کورونا کے آنتک سے خوف و دہشت کا ماحول ہیں. روزانہ کورونا متاثرین کے آنکڑے اور ان سے ہونے والی اموات کو پڑھ کر ریڑھ کی ہڈی سنسناہٹ ہونے لگی ہیں. کورونا سے ہونے والی ہلاکت کے اعداد و شمار دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے شہر بیابان بنے جارہا ہے. کورونا کی اس یلغار میں جہاں محکمۂ پولس, ڈاکٹرز , صحافی اور خدمت خلق سے جڑے افراد اپنی قیمتی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر کورونا کو شکست دینے کے لئے ہمہ جہت محنت کررہے ہیں. سلام ہیں ان جیالوں پر سر موت کا کفن باندھ اپنے مریضوں کے لئے مسیحا بنے ہوئے ہیں اگر جیالوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے تو یہ نہایت غلط بات ہوگی. مگر اس سے زیادہ غلط یہ ہوگا کہ ہم کسی مریض کی موت کا ذمے دار انہیں ٹھہرا کر غنڈہ گردی پر اتر آئے. وہ خواتین ڈاکٹر کے ساتھ. سب سے پہلے تو اس بات کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ الحمداللہ ہم مسلمان ہیں. اور مسلمان کا عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ ہے. کل نفس ذائقۃ الموت . اتنی بڑی سچائی ہمیں پتہ ہونے کے باوجود اگر ہم کسر نفسی کام لیں تو اس سے خراب بات شاید ہی کوئی یو. اب ہم آتے ہیں . اصل موضوع کی طرف. دراصل کورونا کی دوسری لہر بے ناسک ضلع میں بھی دستک دے دی ہے. کارپوریشن کے نائب کمشنر نتن کاپڑنیس سے ملی معلومات کے مطابق فی الحال کارپوریشن حدود میں کورونا کے 510 کے قریب ایکٹیو مریض ہے. جن کا علاج شہر کے مختلف کوویڈ سینٹر پر چل رہا ہے. اس کے علاوہ مالیگاؤں شہر مضافات اور بیرون شہر کے 1700 , اس طرح 2200 ایکٹیو مریضوں کا علاج شہر کے کوویڈ سینٹرس پر جاری ہیں. کل شہر کے سہارا ہاسپٹل کے کوویڈ سینٹر میں ایک مریض کی موت ہوگئی. اہل خانہ کو جیسے موت کی اطلاع ملی. وہ مشتعل ہوگئے اور گالی گلوچ کرکے ہنگامہ کھڑا کردیا. اہل خانہ نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ ہاسپٹل میں موجود خاتون ڈاکٹر پر ہاتھ اٹھادیا . جوکہ نہایت ہی شرمناک بات ہے. مسجدوں و میناروں کے شہر مالیگاؤں میں عین رمضان المبارک میں اس طرح خاتون ڈاکٹر سے بدتمیزی کرنا اور ہاتھ اٹھانا ایک بہت بڑا المیہ ہے مالیگاؤں کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں خواتین کی بہت عزت کی جاتی ہے. مگر سہارا ہاسپٹل میں خاتون ڈاکٹر سے بدتمیزی اور ہاتھ اٹھانے کے معاملے سے شہر شرمسار ہوگیا. مہلوک کے اہل خانہ کا الزام ہے مریض کو ریمڈیسور انجیکشن نہیں لگایا گیا. اس لئے مریض زندگی کی جنگ ہار گیا. لہذا اس ضمن میں جب نمائندے سہارا ہاسپٹل کے مینجر عارف بیگ مرزا سے بات کی تو موصوف نے اس مریض کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اس مریض کی کنڈیشن کافی کریٹکل تھی. مریض کو پونہ سے مالیگاؤں لایا گیا تھا. مریض کو وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی. اور اس کا آکسیجن لیول 40 تھا. چونکہ سہارا ہاسپٹل میں وینٹی لیٹر ہے. لہذا مریض کو ایڈمٹ کرکے اس کا علاج شروع کیا گیا. سہارا ہاسپٹل میں داخل کرنے قبل ہی مریض کے لنگس (پھپھڑے) کو کافی نقصان پہنچ چکا تھا. وینٹی لیٹر پر مریض کا آکسیجن سیچوریشن 60 بتانے لگا. مگر مریض کی حالت میں کوئی سدھار نہیں تھا. ہمارے ڈاکٹر جانفشانی سے مریض کو ریکور کرنے کی کوشش کررہے تھے. چونکہ مریض کے ایچ آر ای ٹی کی رپورٹ نہیں آئی تھی . اس لئے پروٹوکول کے مطابق ریمڈیسور نہیں دے سکتے تھے. واضح رہے کہ ریمیڈیسور اسی مریض کو دیا جاتا ہے حس کا کوویڈ ٹیسٹ مثبت ہو. ڈاکٹرس کی نگہداشت اور کڑی محنت کے باوجود اس مریض کی جاں بچ نہ سکی . بس اسی بات کو بہانہ بناکر مریض کے اہل خانہ بے ہنگامہ کیا. لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور ہاتھ بھی اٹھایا گیا. کیا کورونائی یلغار میں جب ڈاکٹرس اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مریض کا علاج کررہے ہیں. وہ اس طرح کے نارواں سلوک کے حقدار ہے؟ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے. ڈاکٹرز نے اپنی انتھک کوششیں کیں مگر افسوس کے اس مریض کی اتنی ہی زندگی تھی. اہل خانہ اس بات کو سمجھتے تو وہ اب کچھ نہ کرتے . ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اپنے کسی قریبی کی موت ہلاکر رکھ دیتی ہے. مگر اس کے لئے ڈاکٹر ذمے دار نہیں ہوتا ہے. ڈاکٹر کا کام زندگی بچانا ہے زندگی لینا نہیں. نمائندے نے اس ضمن میں میونسپل نائب کمشنر نتن کاپڑنیس سے بھی بات تو انہوں بتایا کہ لوگوں میں اس کے بارے میں بیداری آنی بہت ضروری ہے. یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے. اس سے قبل بھی دو تین ایسے کیس ہوچکے ہیں. جس میں ہاسپٹل میں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ کیا گیا تھا. حب کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے . اپنے شہر کے ڈاکٹر جو کہ بی یو ایم آئس ہے مگر یہ بے چارے بہت محنت کررہے ہیں . ان کے لئے ایک عزت ہونی چاہئے . ایک تو کورونا سینٹر میں کام کرنا آسان بات نہیں ہے. ٹھیک ہے آپ کا مریض زندگی کی جنگ ہار گیا. آپ کو غصہ آنا لازمی بات ہے. مگر ہاسپٹل میں توڑ پھوڑ کرنا, ڈاکٹر پر ہاتھ اٹھانا وہ بھی لیڈی ڈاکٹر پر یہ اچھی بات نہیں ہے. ڈاکٹر سے بدتمیزی کرنا صحیح نہیں ہے. اس کی حمایت نہیں کرسکتے. غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے. آپ نے ری ایکشن دیا مگر وہ آؤٹ آف کنٹرول تھا. اس سے ان کی اسٹریم کو دھکا لگا. اب ڈاکٹر ایک ہوگئے کہ پولس میں چلے گئے. ہم کام نہیں کریں گے . جس کی وجہ سے ڈیڑھ دو سو مریض تکلیف میں آسکتے تھے. اب ہم ڈیڑھ دو سو مریضوں کی زندگی تو داؤ پر نہیں لگا سکتے. جہاں تک ریمیڈیسور کا تعلق ہے تو کورونا پروٹوکول کے مطابق کسی بھی مریض کو اس وقت تک ریمڈیسور نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ مریض کی ایچ آر سی ٹی رپورٹ نہیں آجاتی . علاوہ ازیں کاپڑنیس صاحب نے مزید بتایا کہ کورونا انفیکشن میں ریمڈیسور کوئی حتمی علاج نہیں ہے. ایچ آر سی ٹی رپورٹ آنے کے بعد اس کا استعمال 2 سے 9 دن تک ہی کیا جاسکتا ہے. اگر 9 دن ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد تو آپ کا کوئی چانس ہی نہیں ہے. ریمڈیسور بھی آپ کو نہیں بچایا جاسکتا.


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں