پانچ سال سے جیل میں مقید ملزم نے جلد از جلد سماعت شروع کرنے کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا
نئی دہلی 16 اپریل : ممنوع دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین کے رکن ہونے کے الزامات کے تحت گرفتار عبدالواحید (بھٹکل) نے دہلی ہائی کورٹ میں اس کے مقدمہ کی جلد از جلد سماعت شروع کیئے جانے کی درخواست داخل کی ہے، ملزم کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی ہدایت پر ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے دہلی ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے جس پر ہائی کورٹ نے قومی تفتیشی ایجنسی NIA سے جواب طلب کیا ہے۔
دو رکنی ہائی کورٹ کے جسٹس سدھارتھ میریدول اور جسٹس انوپ جئے رام نے پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے استغاثہ سے جواب طلب کیا ہے، دوران بحث ایڈوکیٹ ایم ایس خا ن نے عدالت کو بتایا کہ ملزم گذشتہ پانچ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے اور ابھی تک اس کے مقدمہ میں چارج بھی فریم نہیں ہوا ہے۔
ایڈوکیٹ ایم ایس خا ن نے عدالت کو بتایا کہ مقدمہ کی سماعت میں ہورہی غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے ملزم کو حاصل اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے لہذا ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔
ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے عدالت کو بتایا کہ این آئی اے قانون کی دفعہ 19 کے تحت مقدمہ کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہئے لیکن اس معاملے میں ایسا ہو نہیں رہا ہے لہذا عدالت کو نچلی عدالت کو حکم دینا چاہئے کہ وہ اس مقدمہ کی روزانہ سماعت کرے۔
واضح رہے کہ ملزم عبدالواحید پر استغاثہ نے الزام عائد کیا ہیکہ وہ انڈین مجاہدین کے اہم رکن یاسین بھٹکل کا رشتہ در ہے جو متعدد مقدمات کا سامنا کرر ہا ہے نیز یاسین بھٹکل نے دیگر لوگوں کی مدد سے ہندوستان میں مختلف بم دھماکے انجام دیئے تھے۔ ملزم عبدالواحید پر الزام ہیکہ اس نے دیگر ملزمین کو نقل و حمل میں مدد کی تھی نیز ہندوستان سے دبئی بھیجے گئے انڈین مجاہدین کے ارکان کے لیئے انتظامات کرنا بھی اس کی ذمہ داری میں شامل تھا۔
انہیں الزامات کے تحت این آئی اے نے ملزم عبدالواحید کو دبئی سے جلا وطن کراکے 20 مئی 2016 کو ہندوستان لایا گیا اور اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اسے گرفتار کرکے دہلی کی مشہور تہاڑ جیل میں بند کردیا تھا جس کے بعد سے ملزم تہار جیل میں ہی مقید ہے۔
ملزم عبدالواحید کی دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد مقدمہ کی جلد از جلد سماعت شروع کرنے کی عرضداشت دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی ہے جس پر عدالت نے این آئی اے سے جواب طلب کیا ہے۔



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں