WOMEN'S DAY SPECIAL
کیا ہمیں 'یوم خواتین ' منانے کا حق ہیں ؟؟؟
تحریر : وفا ناہید خیال اثر
ہر سال 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے. آج صبح سے ہم اس کشمکش میں تھے کہ کیا ہمیں یوم خواتین منانے کا حق ہیں ؟ یہ سوال متواتر ہتھوڑے کی ضرب کی طرح دماغ کے پرخچے اڑا رہا تھا. ہم ہندوستانی ہیں. ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے . لیکن اگر ہم ایمانداری سے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم یوم خواتین منائیں. کیونکہ جس طرح سے آج ہند کی سرزمین پر بنت حوا کو بے آبرو کیا جارہا ہے. بیٹیاں چار دیواری کے باہر کیا اب تو گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں. اس کی عصمت کے لٹیرے اس کی عزت تارتار کرکے نجانے مردانگی کا کونسا راگ الاپ رہے ہیں. ارے اگر یہی مردانگی ہے تو تھو ہے ایسی مردانگی پر جہاں بہو بیٹیاں عزت سے جی نہ سکیں. انسانی کھال میں گھومتے یہ درندے معصوم بچیوں کو بھی نہیں بخش رہے ہیں. آج ہمارے پاس آصفہ سے لے کر جلگاؤں عصمت دری تک ایک لمبی فہرست ہیں. آج یوم خواتین پر ایسا لگ رہا تھا کہ ان تمام کی روحیں ہم سے سوال کررہی ہیں کہ کیا ہماری عصمت تارتار کرکے ان جنونی جنسی بھڑیوں کی کونسی پیاس بجھ گئی کہ انہوں نے ہمیں بے آبرو کرکے مار ڈالا. آج اگر ہندوستان کا سروے کیا جائے تو ہر شہر میں 10 میں سے 7 لڑکیاں ( عمر 4 سے 60 سال ہو) , کسی نہ کسی کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں. وہیں دوسری طرف خواتین کو گھریلو تشدد اور جیہز کے لئے ایزا رسانی کا شکار بھی بنایا جاریا ہیں. غرض عصمت دری, گھریلو تشدد, جہیز کے لئے ایزا رسانی , قتل اور جنسی چھیڑچھاڑ کے واقعات نے خواتین کو عدم تحفظ کی وجہ سے ڈپریشن کا مریض بنادیا ہیں. جہاں وہ ایک ذہنی مریضہ بن گئی ہیں. ابن آدم تعلیم میں تو بنت حوا سے پچھڑا ہوا تھا ہی اب تو .ملازمت اور کاروبار میں بھی بنت حوا بے اسے مات دے دی ہیں. اس پر مرے پر سو درے شوشل میڈیا نے اسے بالکل ہی نالائق اور ناکارہ بنادیا ہیں. اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنا ضمیر اور خودداری بھی شوشل میڈیا پر بیچ آئے ہیں. ملازمت یا کوئی کام دھندہ نہ کرکے بس پڑھی لکھی ملازمت پیشہ خواتین کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے محبت کے جھانسے میں گرفتار کرکے شادی کرلی جاتی ہیں. تب ایسی انڈے دینے والی مرغی ان کے ہاتھ لگ جاتی ہیں جو ملازمت کرکے اپنے نکھٹو شوہر کو بھی پالتی ہیں ساتھ ہی ایک بے دام ملازمہ کی طرح گھر گرہستی بھی سنبھالتی ہیں. اس کے باوجود اسے تا زندگی تعلیم یاقتہ ہونے کا طعنہ الگ سے سننے کو ملتا ہے.
آج جتنی عزت احترام شوشل میڈیا پر لڑکیوں کو اسیر محبت کرنے کے لئے دی جاتی ہے اس عزت احترام و محبت کا 10 فیصد بھی اگر واقعی کوئی اپنی بیوی کو دے تو اس کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے گی. مگر شوشل میڈیا پر نامحرم عورتوں کی پذیرائی کی جاتی ہیں. اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں. مگر بیوی سے پیار سے تو چھوڑیئے سیدھے منہ بھی بات نہیں کی جاتی. جب کہ اسلامی تعیلمات کے مطابق بیوی کو مسکرا کر دیکھنے سے اللہ رب العزت راضی ہوتا ہے. بیوی کو پیار سے ایک لقمہ کھلانآ بھی صدقہ ہے. مگر افسوس صد افسوس ! اپنی ذہنی عیاشی کے چکر میں پڑکر ابن آدم اپنی ازداوجی زندگی میں نفرت کے کانٹے بو رہا ہے . حس کی چبھن اور اس کی لاپرواہی اور عدم توجہی سے اس کی بیوی ڈپریشن کا شکار ہورہی ہیں اور یہ ڈپریشن اسے خودکشی کی راہ پر لے جارہا ہے. ابن آدم شاید بھول گیا کہ ایک پودے کی افزائش کے لئے کھاد ضروری ہوتی ہیں اسی طرح محبت کی پھوار اور دو پیار بھرے بول سے ایک عورت جی اٹھتی ہیں. اس میں زندگی کی رمق دوڑ جاتی ہیں ورنہ غصہ گرمی اور بے اعتنائی اسے باغی بنادیتے ہیں. لہذا اپنی بیوی کو پیار, محبت اور احترام دیں. گھر اور باہر کی خواتین کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں تو ہر روز یوم خواتین ہوگا. ورنہ یوں گھریلو تشدد اور لڑائی جھگڑے اسے ڈپریشن کا مریض بنادیں گے اور وہ زندگی پر موت کو ترجیح دیں گی .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں