src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> عالمی یوم خواتین ,یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے! ‏ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 8 مارچ، 2021

عالمی یوم خواتین ,یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے! ‏

WOMEN'S DAY SPECIAL  

عالمی یوم خواتین ,یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے! 


تحریر :خیال اثر مالیگانوی                         

فائل فوٹو


دور جاہلیت میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کردیا جانا عام باتیں تھیں لیکن جب کوہ فاران کی بلند بالا چوٹیوں سے دین مبین کی کرنیں پھیلیں  اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  کی روش و منور تعلیمات عام ہوئیں تو خواتین کی عظمت و عفت قابل افتخار گردانی جانے لگی. بدلتے زمانوں نے عورتوں کی عظمت کو مقدم جانا. مشہور ہے کہ ماں کی گود اولین درسگاہ ہوتی ہے ساتھ ہی اسلام کا آفاقی پیغام کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے. ہر بدلتے دور نے عورتوں کی عظمت و عفت کو قابل افتخار جانا ہے. عورتوں نے دنیائے آب و گل میں بے شمار کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں. کبھی حضرت عائشہ بن کر سرور کائنات کی روایتوں کی راوی رہی ہیں تو کبھی فاطمہ زہرہ بن کر کرب و بلا کی اذیتیں جھیلی ہیں. کبھی زلیخا بن کر اپنے پاکدامانی اور عفت کا ثبوت دیا ہے دنیا کے چپے پر عورتوں کی عظمتیں اور سرفروشانہ قیادت زبان زد عام ہیں. عورت ہی نور کی وہ پاکیزہ بوند ہے جو آسمان سے اتاری گئی ہے حالانکہ بدلتے زمانوں نے اس کی پاکیزگی کو داغ دار کرنے کی کوششیں کی ہیں. عورت کا جذباتی استحصال روز مرہ کی باتیں ہو کر رہ گئیں ہیں. کبھی اسی عورت کو سیتا بن کر اگنی پریکشاںسے گزرنا پڑتا ہے تو کہیں یہی عورت دیوی بن کر شیراں والی کہلاتی ہے. ترقی یافتہ زمانے میں یہی عورت کلپنا چاولہ بن کر خلاؤں کی تسخیر کرتی ہے تو کبھی میلانیا ٹرمپ بن کر خواتین کی تذلیل کا سامان بہم کرتی ہے کبھی یہی عورت اپنے دیش کی آزادی کے لئے رانی لکشمی بائی بنی گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار بہادری اور شجاعت کی مثالیں قائم کرتی ہے کبھی بیگم حضرت محل بن کر آزادی کے متوالوں کی قیادت کرتی ہے تو کبھی ہندوستانی پرچم ترنگے کے رنگوں کی آبیاری کرتی ہے. ہر دور نے عورتوں کی بے مثال قربانیوں کو مقدم جانا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی عورت کو حرص ہوس کی منڈی میں بے مول بھی کیا جاتا ہے. اسی عورت کو کبھی جوئے میں ہار دیا جاتا ہے تو کبھی درہم و دینار کے عوض  کسی نیلام گھر میں سجا سنوار کر پیش کردیا جاتا ہے کبھی دولت کے پجاری اسی عورت کو قحبہ خانوں اور چکلوں کی زینت بنا دیتے ہیں جہاں انسان نما گدھ شب و روز اسے نوچ کر کھاتے رہتے ہیں. اس کی ذمہ دار بھی کبھی کبھی  خود عورت ہی ہوتی ہے. 
مہنگے ترین ملبوسات اور زیوارت کا شوق عورتوں کو خود ہی بازار حسن کی زینت بنا دیتا ہے. فی زمانہ ملکہ حسن کا انتخاب کے لئے ہونے والے مقابلوں میں شامل خواتین کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور کتنوں کی ہوس کا شکار ہونا پڑتا ہے یہ ساری باتیں بھی کبھی کبھی عام ہو جاتی ہیں لیکن یہ طے ہے کہ عورت ہر بازی دل سے کھیلتی ہے لیکن صرف ایک بازی ایسی ہوتی ہے جو وہ دماغ سے کھیلتی ہے یہی ایک بازی اس کی اپنی بقا کی ہوتی ہے اور یہی وہ بازی ہوتی ہے جس میں اسے کوئی بھی مات نہیں دے سکتا. اپنی بقاء کی بازی عورت اپنے جذبات اور دل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کمال ہوشیاری سے کھیلتی ہے کہ ہر کوئی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے ساتھ ہی اس کے مقابل شاطر ترین افراد بھی اس آخری بازی میں حزیمت کا شکار ہو کر عورت کی عظمتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں. فلم اور ٹی وی کی سنہری اور چکمدار دنیا کو چھوڑ دیں تو آج بھی دنیا عورتوں کی بے مثال قربانیوں اور عظمت و عفت میں رطب السان رہے گی. یہی وہ عورت ہے جو کبھی بے نظیر بھٹو بن کر ایک نئے پاکستان کی بنیاد گزاری میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے.یہی وہ عورت ہے جو کبھی ام کلثوم بن کر عرب کے سلگتے ریگزاروں میں اپنی دل نشیں آواز کا ترنم بکھیرتی ہے. یہی وہ عورت ہے جو اپنی آوازوں کے زیر و بم سے گیت و سنگیت کی دنیا میں میڈیم نور جہاں بن کر نصف صدی سے زائد عرصہ تک راج کرتی رہی ہے. 
فی زمانہ ترقی یافتہ دور نے خواتین کو اپنے گھر کی دہلیز سے باہر نکالتے ہوئے تباہی و بربادی کے دہانوں پر پہنچا دیا ہے. خواتین جب تک اپنے گھروں کے اندر باپردہ رہتی ہیں وہ محفوظ و مامون رہتی ہیں اور جوں ہی یہ عورت اپنے مامن سے باہر قدم نکالتی ہیں بھوکے درندے کسی سگ آوارگاں کی طرح ان پر جھپٹ پڑتے ہیں. عورتوں کی تذلیل پر آمادہ آج کا ترقی یافتہ سماج عورتوں کے جائز حقوق غصب کرتا جارہا ہے. جاہ و بیجا پابندیوں میں جکڑی ہوئی عورت اپنی حقوق کی متلاشی ہے. عورتوں کے ہونٹوں پر ملکوتی تبسم تو ہے لیکن اس کی جھیل آنکھوں میں آنسو بھی رواں ہیں. اس کے دل بے قرار میں جذبات کا طوفان مچل رہا ہے لیکن اس پر پتھروں کی سلیں بچھا کر اسے پابند سلاسل کردیا گیا ہے. ہر سال 8 مارچ کو عالمی یوم  خواتین  کے نام پر مختلف تقریبات کے ذریعے عورتوں کے حقوق اور ان کی عظمتوں کی شان میں قصیدہ خوانیوں کا بازار گرم کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی طے ہے کہ ایسی ہر تقریب اور قصیدہ خوانیوں پر نربھیا اور گلناز بانو کی چیخیں حاوی رہتی ہیں. حالانکہ  عدلیہ میں ایک عدد دیوی اپنی آنکھوں پر کالی پٹی باندھے نمایاں نظر آتی ہے لیکن ان ہی عدالتوں میں جب کوئی مجبور و بے بس عورت کا مقدمہ سماعت کے مراحل سے گزرتا ہے تو بھری عدالت میں اس کی عزت سے شرمناک کھلواڑ کیا جاتا ہے. آج سماج و معاشرہ میں لا تعداد نربھیا اور گلناز بانو اپنی درد ناک کہانیوں سمیت بکھری نظر آتی ہیں. کوئی ان کا پرسان حال نہیں. دنیا کا کوئی بھی مذہب عورتوں کی حرمت کا پاسدار نظر نہیں آتا. خاص طور پر ہندو میتھو لوجی میں خواتین کو انتہائی ذلیل اور نچلے درجے کی مخلوق گردانا جانا جاتا ہے جبکہ مذہب اسلام نے عورتوں کو اس کے جائز حقوق سمیت اوج ثریا پر پہنچا دیا ہے. دنیا کی کوئی بھی مذہبی کتاب عورتوں کی تعریف و توصیف میں قصیدہ خواں نہیں ہے. ویدک کتابیں بھی عورتوں کو ان کے جائز حقوق سے. محروم رکھنا جائز اور افضل سجھتی ہیں اس لئے فی زمانہ عورتوں کے حقوق کی علمبرداری کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ عالمی یوم خواتین کے نام پر بے جا نمائش پسندی سے باز رہیں. اگر وہ خواتین کی عزت نفس کو ملحوظ نہیں رکھ سکتے تو ان کے حق میں مگر مچھ کے آنسو بھی نہ  بہائیں. عورتیں اپنے جائز حقوق آج نہیں تو کل خود ہی حاصل کر لیں گی کہ جب ایک عورت اپنی کوکھ میں نو مہینوں تک آنے والی نسلوں کی آبیاری کرتے ہوئے مرد کو جنم دے سکتی ہے تو اپنے جائز حقوق کی بازیابی کے لئے اپنے مہندی لگے کمزور اور ناتواں ہاتھوں میں تلوار بھی اٹھا سکتی ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages