مالیگاؤں میں ایک اور جواں سال دوشیزہ کی دردناک خودکشی سے سنسنی
نسل نو میں جان دینے کا بڑھتا ہوا رجحان والدین کے لئے لحمہ فکریہ!
*✍️خیال اثر✍️*
مالیگاؤں شہر ایک طویل عرصہ سے حادثوں کی آمجگاہ بنا ہوا ہے. سیاسی لیڈران حادثوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں نیز اپنا سیاسی قد بلند رکھنے کے لئے لا یعنی اقدامات میں خود بھی الجھے ہوئے اور شہریان کو بھی الجھائے رکھا ہے. معاشی درماندگی نے بے شمار گھرانوں کو مفلسی اور بھوک کے دہانوں پر پہنچا دیا ہے. بن بیاہی بیٹیاں یا تو ارتداد کی کگار تک پہنچ گئی ہیں یا پھر خودکشی پر مجبور ہوتی جارہی ہیں. بے شمار والدین کی بیٹیاں اپنے بالوں میں چاندی کے تار سجائے دلہن بننے کی منتظر ہیں اور اس طرح جب انھیں کہیں سے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی تو وہ خود کو بے دست و پا محسوس کرتے ہوئے پھانسی پر لٹک جاتی ہیں ایسا ہی ایک دلدوز واقعہ رسولپورہ نزد جونا ملت مدرسہ کے پاس پیش آیا. واقعہ یہ تھا کہ بھائی عصر کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد گیا تب گھر میں کوئی بھی نہیں تھا اور 19 سالہ شائستہ فردوس محمد یاسین نامی نوجوان دوشیزہ نے اپنے مکان میں کسی کو نہ پاتے ہوئے خود کو پھانسی پر لٹکا لیا. عصر کی نماز ادا کرکے جب متاثرہ کا بھائی گھر لوٹا تو بارہا دستک دینے کے باوجود دروازہ نہیں کھلا تب شائستہ کے بھائی نے کسی طرح اوپری منزلے پر پہنچ کر دورازہ کھولا. دروازہ کھلتے ہی رونگٹے کھڑا کردینے والا منظر دکھائی دیا کہ اس کی بہن پھانسی کے پھندے سے لٹکی ہوئی ہے. دل دہلا دینے والا منظر دیکھتے ہی شائستہ کے بھائی نے قرب و جوار کے سرکردہ افراد کو واقعہ کی خبر دی. خودکشی کی وجہ تادم تحریر نا معلوم رہی. محلے کے معاون رکن بلدیہ حاجی لیئق احمد نے اس بات کی اطلاع پولیس کو دی. پولیس جائے وقوع پر پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے بعد قانونی نقاط کی تکمیل کے لئے نعش سرکاری اسپتال روانہ کی جہاں حافظ عبدللہ, شفیق انٹی کرپشن, ضیاء مسکان کے علاوہ دیگر افراد نے پوسٹ مارٹم میں معاونت کرتے ہوئے شائستہ کی لاش اہل خانہ کے سپرد کی. قلعہ پولیس اسٹیشن عملہ نے مذکورہ خودکشی واقعہ کو حادثاتی موت درج کرتے ہوئے اپنی تفتیش کا دائرہ دراز کر رکھا ہے. عیاں رہے کہ 8 روز قبل بھی یہاں کے حاجی احمد پورہ میں شیخ پرویز نامی غیر شادی شدہ نوجوان نے خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھایا تھا. آئے دن خودکشی کے واقعات والدین کے لئے لمحہ فکریہ بنتے جارہے ہیں. آسودہ حالی ہو یا مفلسی کے ایام. ہر طبقہ کی جوان العمر دوشیزائیں موت کو گلے لگانے کے در پے ہیں حالانکہ والدین بے دست و پا رہنے کے باوجود اپنی اولادوں کو ہر آشائشیں بہم کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں. خود بھوکے رہ کر اپنی اولاد کو پیٹ بھر کھانا مہیا کرنے کے لئے محنت و مشقت کا بار اٹھانے کی شب و روز کوشش کرتے ہیں اس کے باوجود جب کسی باپ کی بیٹی خود کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکا لیتی ہے تو ماں باپ کے دلوں پر کیا گزرتی ہے یہ سوچ کر دل کانپ جاتا ہے. حالانکہ مشہور ہے
درد کیا ہے سینے کا پسلیاں سمجھتی ہیں
باپ کی غریبی کو بیٹیاں سمجھتی ہیں
اس کے باوجود کسی لڑکی کا خودکشی کر لینا تعجب خیز امر ہے ہی ساتھ ہی سماج و معاشرہ کے لئے بھی کسی تازیانہ سے کم نہیں. عصر نو کے والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت کے علاوہ ان کی تعلیم و تربیت کا ایسا معقول انتظام کریں کہ وہ زندگی جیسی نعمت بیش بہا کو سینے سے لگائیں. زندگی کی ہر دشوار گزار شاہراہوں پر ابدی موت تک سرگرم عمل رہیں.



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں