src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> گرفتاریوں کے خلاف جمعیۃعلماء ہند کی پٹیشن سپریم کورٹ کے بعد الہ آبادہائی کورٹ میں بھی داخل، لوجہادقانون کی آڑمیں ایک ہی فرقے کو نشانہ بنانا مقصد : مولاناارشدمدنی - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 17 جنوری، 2021

گرفتاریوں کے خلاف جمعیۃعلماء ہند کی پٹیشن سپریم کورٹ کے بعد الہ آبادہائی کورٹ میں بھی داخل، لوجہادقانون کی آڑمیں ایک ہی فرقے کو نشانہ بنانا مقصد : مولاناارشدمدنی


گرفتاریوں کے خلاف جمعیۃعلماء ہند کی پٹیشن سپریم کورٹ کے بعد الہ آبادہائی کورٹ میں بھی داخل، لوجہادقانون کی آڑمیں ایک ہی فرقے کو نشانہ بنانا مقصد : مولاناارشدمدنی


مولانا ارشد مدنی



ریلیز کے مطابق جمعیۃعلماء ہند نے الزام لگایا کہ حکومتیں لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہیں اور آئین ہند کے ذریعہ حاصل بنیاد ی حقوق کو اقتدار کے بل بوتے پر پامال کررہی ہیں۔حکومتوں کے اس امتیازی اور ظالمانہ رویہ کے خلاف اب جمعیۃعلماء ہند نے بھی اپنی قانونی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے، اس پٹیشن پر آئندہ منگل یابدھ کو سماعت ہوسکتی ہے۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے معاملہ کی تفصیل پرروشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ ملزمین کے اہل خانہ نے مولانا وکیل احمد قاسمی کے توسط سے صدرجمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی سے قانونی امداد طلب کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے ملزمین کی رہائی کے لیئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے اور ملزمین کی رہائی کے لیئے پٹیشن داخل کردی گئی ہے۔ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ فرقان خان کے ذریعہ داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ یو پی حکومت اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاکر مسلمانوں کو لو جہاد کے نام پر ہراساں کررہی ہے اور انہیں آئین ہند کے ذریعہ دیئے گئے بنیاد ی حقوق سے محروم کررہی ہے۔

عرضداشت میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ لو جہاد کو غیرقانونی قرار دینے والے قانون کا سہارا لیکر اتر پردیش پولس مسلمانوں کو پریشان کررہی ہے اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جارہا ہے جس کی ایک بدترین مثال یہ مقدمہ ہے جس میں مسلم لڑکے کے والدین اورقریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ ان کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، مسلم لڑکا اور ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور دونوں فی الحال کہاں ہیں یہ بھی کسی کو نہیں معلوم لیکن لڑکی کے والد کی شکایت پر مقامی پولس نے دو خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کرلیا جس کے بعد سے پورے علاقے میں سراسمیگی کا ماحول ہے۔عرضداشت میں مزید لکھا گیا ہے کہ عورتوں کی گرفتاری سے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بے یارو و مددد گارکسمپرسی کے عالم میں زندگی گذارنے پرمجبور ہیں اس کے باوجود پولس والے انہیں چھوڑ نہیں رہے ہیں حالانکہ ابھی تک پولس نے اس معاملے میں چارج شیٹ بھی داخل نہیں کی ہے۔

عرضداشت میں مزید کہاگیا ہے کہ لوگوں کو بغیر کسی ثبوت وشواہد کے گرفتار کرلیا گیا جبکہ یہ معاملہ صرف لڑکا اور لڑکی کے درمیا ن کا ہے لہذا تمام لوگوں کے خلاف قائم مقدمہ کو فوراً ختم کیا جائے اور انہیں جیل سے فوراً رہا کیا جائے۔گلزار اعظمی نے یہ بھی کہا کہ لکھنؤ ہائی کورٹ میں سماعت کے موقع پر سینئر وکلاء کی خدمات حاصل کی جائیں گی، کیونکہ حال ہی میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ بالغ لڑکے لڑکی کو اپنی پسند کی شادی اور مذہب اختیار کرنے کا آئینی حق ہے اس کے باوجود لو جہادکے نام پر یوپی سرکار مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنا کر ہراساں کررہی ہے۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کچھ ریاستوں میں مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی غرض سے نام نہادلوجہادکی آڑمیں لائے گئے قانون پر سخت ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی قانون سازی آئین کے رہنمااصولوں کے خلاف ہے اور یہ قانون شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ ہے جبکہ آئین میں ملک کے ہر شہری کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے بلکہ اسے اپنی پسند اور ناپسند کے اظہارکا بھی پورااختیاردیا گیاہے انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوگا، اور کسی فرقے کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتاجائے گالیکن اترپردیش جیسی اہم ریاست میں اس آئین مخالف قانون کا بلا روک ٹوک ایک مخصوص فرقہ کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ حال ہی میں اسی طرح کے ایک معاملہ میں الہ آبادہائی کورٹ میں اترپردیش سرکارکی طرف سے جو حلف نامہ داخل کیا گیا ہے وہ اس افسوسناک سچائی کا آئینہ ہے، حلف نامہ میں دی گئی تفصیل کے مطابق اب تک جن 85لوگوں کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمے قائم کئے گئے ہیں ان میں 79مسلمان ہیں جبکہ دیگر عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

مولانا مدنی نے یہ بھی دعوی کیا کہ اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اترپردیش میں خاص طورپر اس طرح کے معاملوں میں اگر لڑگا ہندوہے توپولس لڑکی کے گھروالوں کی تمام ترکوشش کے باوجود شکایت تک درج نہیں کرتی الٹے ایسے جوڑوں کو پولس تحفظ بھی فراہم کرتی ہے، انہوں نے آگے کہا کہ اس طرح کے واقعات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ اس قانون کا استعمال اقلیتوں اور خاص طورپر مسلمانوں کے خلاف ہی ہورہا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages