لو جہاد معاملہ :
لو جہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشت کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لئے قبول کرلیا
جمعیۃ علماء بطور مداخلت کار عدالتی کارروائی میں حصہ لیگی، گلزار اعظمی
ممبئی 6 جنوری : سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج یہاں لوجہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشت کو سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، حالانکہ عدالت نے اس پر اسٹے دینے سے انکار کردیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے اتر پردیش اور اتراکھنڈ ریاستوں کی جانب سے پاس کئے گئے قوانین اور آرڈیننس کے خلاف داخل عرضداشت کو سماعت کے لئے قبول تو کرلیا لیکن اسٹے دینے سے انکار کردیا۔
سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن و دیگر کی جانب سے داخل کردہ اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے عدالت مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو چار ہفتوں کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے عرضداشتوں کو سماعت کے لئے منطور کرلیا۔
اسی درمیان جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں مداخلت کار کی درخواست داخل کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی عدالت سے اجازت طلب کی ہے۔
ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے پٹیشن داخل کی ہے جس میں لکھا ہیکہ ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 کو اتر پردیش حکومت نے منظوری دے دی ہے جبکہ اتراکھنڈ حکومت نے فریڈم آف ریلجن نامی قانون کو منظوری دی ہے اس قوانین کو بنانے کا مقصد ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ہے جو آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے ۔
عرضداشت میں مزید لکھا گیاہیکہ ان قوانین کی وجہ سے مذہبی اور ذاتی آزادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے جو غیر آئینی ہے لہذا عدالت مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کردیناچاہئے۔
عرضداشت میں لکھا گیا ہیکہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتہ ناتھ نے خود اعلان کیا ہے کہ وہ لو جہاد کو روکنے کے لیئے غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 بنایا گیاہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے لو جہاد پر قانون بنانے والی ریاستوں اور مرکز کو جاری کی گئی نوٹس کا جواب ملنے کے بعد سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کی سماعت عمل میں آئے گی جس کے دوران جمعیۃ علماء کی مداخلت کار کی درخواست پر فیصلہ ہوگا۔


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں