یوم صحافت "کی آڑ میں کب تک صحافیوں کا استحصال کیا جاتا رہے گا؟
ایک وقت تھا جب مولانا ابوالکلام آزاد نے "الہلال و البلاغ"اور مولانا محمد علی جوہر نے "زمیندار"کے ذریعے آزادی کی لوکو بھڑکا کر الاؤ بنا دیا تھا کیونکہ ان دونوں مرحومین نے غلام ہندوستانیوں کو جذبہ حریت سے نہ صرف آشنا کیا تھا بلکہ انھیں آزادی کا صحیح مفہوم بھی سیکھا دیا تھا. انھوں نے ہی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھانے کے لئے نمایاں کردار ادا کیا تھا. ریشمی رومال تحریک کے سرفروشوں نے رومالی اخبار جاری کرتے ہوئے شمع آزادی کو کبھی بجھنے نہ دیا تھا. جوں جوں ہندوستان میں سرفروشی کا جذبہ انقلاب برپا کرنے کی دہلیز تک پہنچتا گیا توں توں ان اخبارات کے ذمہ داران پر انگریز سامراج کا عتاب بھی بڑھتا گیا. نہ صرف انھیں پابند سلاسل کیا گیا بلکہ ان کے پریس اور دیگر املاک بھی ضبط کر لئے گئے تھے. ماضی کے ان جیالوں کی بدولت جب انگریز سامراج کا غاصبانہ سورج غروب ہوا اور آزادی کی شمع جل اٹھی تو بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعے ہندوستانی آئین کی بنیاد گزاری کی گئی. اخبارات اور صحافی حضرات کی سرفروشانہ بے لوث خدمات کو دیکھتے ہوئے فن صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیا گیا تھا. اسی مناسبت سے ہر سال 6 جنوری کو" یوم صحافت" سے منسوب کرتے ہوئے "صحافت "کے نام سے خوب ہنگامہ آرائی کی جاتی ہے کہ لیکن اس سلسلے میں ہر شعبہ حیات سے منسلک تنظیمیں ادارے اور حکومتیں بھی انجماد کا شکار ہیں. صحافت کو چوتھا ستون قرار دینے اور یوم صحافت کے نام سے منسوب اس دن کہیں کسی گوشے سے بھی ہلکی و مدھم سی سرگوشی سنائی نہیں دیتی. ارباب حکومت اور سیاست ہمیشہ ہی صحافت اور اس سے وابستہ افراد یعنی صحافیوں کو اپنی مقصد براری کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے اعزاز میں کوئی محفل منعقد کی جاتی ہے نہ ہی ان کی بے لوث خدمات کا اعتراف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے . نامساعد حالات میں وہ صحافی حضرات جو کسمپرسی کے عالم میں اپنی زندگی کی مسافت طے کررہے ہیں تو بے شمار صحافی حضرات ایسے بھی ہیں جو سنگین بیماریوں کی زد میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں تو بے شمار صحافی ایسے بھی جو اپنی بےباک صحافت کی وجہ سے ناکردہ جرموں کی سزا کاٹنے کے لئے بے دردی سے جیلوں میں ٹھونس دئیے گئے ہیں. ایسے صحافی حضرات کی باعزت رہائی کے لئے کوئی بھی میدان عمل میں آنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی کوئی ان کے اہل خانہ کی کفالت کی ذمہ داریوں کا بار گراں برداشت کرنے کو تیار ہے. یہ دیکھ کر آج کے دور قحط الرجال میں جب جذبہ انسانیت عنقا و نایاب ہو گئی ہے کوئی نہیں ہے جو ان جانثاران قلم کی ذمہ دارانہ داد رسی کے فرائض انجام دینے کی جد و جہد کرے. آج جب ٹی وی جیسے الیکٹرانکس میڈیا نے اپنے لئے زندگی کی ساری آشایئشات بہم کر لی ہیں اور اخباری دنیا سے جڑے ہوئے وہ افراد جو معمولی معمولی خبروں کے لئے آبلہ پائی پر مجبور ہیں انھیں اعزاز دینا تو دور ان کی خبر گیری کے لئے تیار نہیں کہ وہ کس طرح اپنی اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کررہے ہیں. یوم صحافت کے اس ذرین موقع یعنی "یوم صحافت "کے موقعہ پر صحافی حضرات کا استحصال کب تک...... آخر کب تک ہوتا رہے گا. یہ دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
کس قدر ہوگا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری آنکھ سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کئے جاتے ہیں بازار سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گوہر جائیں گے
یہ ایک ایسی شکایت ہے جو ملت خوابیدہ کے روبرو صحافی حضرات کی جانب سے پیش کی گئی ہے. کیا ملت گمشتہ یوم صحافت کے موقع پر صحافی حضرات کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ایک پھول بھی پیش نہیں کر سکتی. کہاں ہیں....... کہاں ہیں صحافت کو چوتھا ستون قرار دینے والے ارباب حکومت اور ان کے پالیسی ساز. کیا صحافی حضرات کو ارباب حکومت کے روبرو با آواز بلند بحالت مجبوری یہ کہنا پڑے گا کہ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں, کوئی نہیں آئے گا
دیکھئے اگر صحافت اور صحافی حضرات نے اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لیا تو ارباب حکومت اور تمام سیاسی پارٹیوں کے علاوہ تمام لیڈران کا بھی سورج دور کہیں افق کے غاروَں میں ایسا غروب ہوگا کہ دوبارہ اسکے نصیب میں کبھی بھی عروج کا دورانیہ نہیں آئے گا. یوم صحافت کے اس موقعہ پر اگر ارباب حکومت اور سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں کوئی اعزاز دینے سے خود کو معذور سمجھتی ہیں تو کم از کم اخبارات کے مالکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اخبارات سے منسلک صحافیوں کے لئے اعزاز و اکرام بھلے ہی نہ دیں لیکن انھیں گلوں کا نذرانہ دیتے ہوئے ان کی بےلوث خدمات کا اعتراف تو ضرور کرنا چاہیے کہ یہی یوم صحافت کی اصل روح ہے. ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ آواز بھی سرمایہ دارانہ نظام کے لئے صدا بصحرا ثابت ہوگی اور ہماری یہ صدا بھی صدائے بازگشت بن کر ہم ہی تک لوٹ آئے گی اور ہم جیسے بے لوث خدمت گزاران کے روبرو اپنا سر پٹک پٹک کر اپنی جان دے دے گی.



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں