چلتی بس میں دوشیزہ کی عصمت دری, نابالغ کا جنسی استحصال,
کابینی وزیر دھننجئے منڈے پر انکی ایک رشتہ دار نے عصمت دری کا سنگین الزام
✍️خیال اثر مالیگانوی ✍️
آج کے ترقی یافتہ زمانے میں الہڑ دوشیزاؤں کا حصول آسان ہو کر اس درجہ پر پہنچ گیا ہے کہ نہ تو کسی کو جنگ پر مجبور ہونا پڑتا ہے نہ ہی کسی کو پتھر کھانا پڑتا ہے نہ ہی کسی کو ملن کی آس لئے کچے گڑھے کا سہارا لینا پڑتا ہے اور نہ ہی کسی فرہاد کو کوہکنی جیسے دشوار گزار عمل سے گزرنا پڑتا ہے. آج سب کچھ انتہائی آسان اور سہل ہو گیا ہے اور ضدی طبیعت رکھنے والا انسان اگر کوئی چیز باآسانی حاصل نہیں کر سکتا تو وہ زبردستی اور سرعام حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے. آج جوان و آبنوشی بدن حاصل کرنے کے لئے حضرت انسان یہ بھی نہیں سوچتا ہے کہ اس کی ناجائز اور غلط حرکتوں کی وجہ سے شیشے کا یہ بدن کچھ اس طرح چھن سے ٹوٹ پھوٹ کر کرچیوں میں بکھر جائے گا کہ اسے سمیٹنا ایک کار دشوار ثابت ہوگا.
دور حاضر میں خوب صورت نازنینوں کو حاصل کرنے کے لئے آج کا انسان اس حد تک پستی میں گر کر ان تمام سماجی حدود کو پار کر جاتا جو معاشرہ کی پیشانیوں پر ایک انمٹ داغ کی صورت ابھر آتا ہے. زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ راجدھانی دہلی کی عام شاہراؤں پر دوڑتی بھاگتی ایک بس سے نربھیا کی چیخیں پارلیمنٹ کے ایوانوں سے نکل کر سنگا پور کے اسپتالوں تک گونجتے ہوئے موت کی آغوش میں گم ہو گئیں تھیں. ناجائز تعلقات استوار نہ کرنے کی صورت میں گلناز بانو کو انتہائی بے دردی سے زندہ نذر آتش کردیاگیا تھا. چند دنوں پہلے بدایوں ضلع کے کسی گاؤں میں پوجا کے لئے آئی ادھیڑ عمر خاتون کے ساتھ نہ صرف اس کی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی بلکہ بری طرح زد و کوب کرتے ہوئے اس کے مخصوص اعضاء میں لوہے کی سلاخ ٹھونس دی گئی تھی. نربھیا سے شروع ہونے والے زنا باالجبر کے واقعات کا یہ شرمناک سلسلہ تھمنے کی بجائے تیز رفتاری سے روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے. آج ہندوستان کے کسی نہ کسی گوشے سے مظلوم دوشیزاؤں کی فلک شگاف چیخیں بلند ہو کر انسانیت کو شرمسار کررہی ہیں کہ آیا وہ زندہ بھی ہے یا کسی مرگھٹ میں نذر آتش ہو گئی ہیں . دور پر فتن میں حکومت , پولیس ,قانون و عدلیہ کا خوف مجرموں کے ذہن و دل سے نکل چکا ہے.ملک کے کسی نہ کسی علاقے سے انسان نما درندے معصوم خواتین کو انتہائی بے دردی سے اپنا شکار بنا کر انھیں زندہ در گور کررہے ہیں. نربھیا سے گلناز بانو تک شیطان نما انسانوں نے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے ایسے ایسے رزیل فعل کا ارتکاب کیا ہے کہ عام افراد کو "انسان بنا شیطان "کہنے پر مجبور ہونا پڑا ہے. نئے سال کی 6جنوری کو ریاست مہاراشٹر کی ایک بس میں ایک خاتون سوار ہوئی. اس خاتون کو چلتی بس میں چاقو کہ نوک پر جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا. مذکورہ خاتون گوندیا سے پونہ جانے کے لئے نکلی تھی. بس میں سوار ہونے پر ملزم نے خاتون کو بس کی پچھلی سیٹوں پر یہ کہہ کر بیٹھنے پر مجبور کیا کہ یہ سیٹ نمبر تمہارا نہیں ہے. جب وہ خاتون پچھلی سیٹ پر جا بیٹھی تو ملزم نے چاقو کی نوک پر اسے زبردستی اپنی ہوس کا شکار بنایا اور منہ کھولنے پر چلتی بس سے باہر پھینکنے کی دھمکی دی .پونے پہنچنے کے بعد متاثرہ خاتون نے اپنی عصمت لٹنے کا تماشہ پولیس سے بیان کیا. تب پونے پولیس نے مذکورہ خاتون کی شکایت واشیم پولیس اسٹیشن کو روانہ کرتے ہوئے مزید تفتیش کی ذمہ داریاں تقویض کردیں تب واشیم پولیس نے گڈویل ٹراویلس کی مسافر بس کو قبضے میں لیتے ہوئے تفتیش شروع کی تو سمیر دیوکر نامی شیطان صفت کا نام سامنے آیا. متاثرہ خاتون کس گاؤں کی ساکنہ ہے یہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن پونہ سے ہوتے ہوئے واشیم اور پھر مالیگاؤں پولیس محمکہ زنا باالجبر کے اس شرمناک واقعہ کی تفتیش میں مصروف ہے. مالیگاؤں پولیس نے سمیر دیوکر نامی درندے کو جلد از جلد گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے. ادھیڑ عمر کی خاتون کے علاوہ نوجوان دوشیزاؤں کی عصمت ریزی کے ساتھ ساتھ نابالغ لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری کے واقعات بھی مسلسل منظر عام پر آتے جارہے ہیں. ضلع ناسک میں ایک 13سالہ نابالغ بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے الزام میں پولیس نے ایک خاتون سمیت 6افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں ایک نابالغ بھی شامل ہے. تفصیلات کے مطابق سینچر کی رات یہ نابالغ لڑکی اپنے مکان میں تنہا تھی. لڑکی کے والدین جب اپنے گھر واپس آئے تو اپنی بیٹی کو نا پانے کے بعد اس کی تلاش شروع کی تب یہ نابالغ بچی قریب کے ایک مکان کی چھت پر روتے ہوئے دکھائی دی. بلک بلک کر رونے کی وجہ دریافت کرنے پر اس نے والدین کو سارے ماجرے سے آگاہ کیا. واقعہ کی تفصیل ملنے کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی گئی. شکایت کے اندراج کے بعد پولیس نے 6 افراد کو گرفتار کیا جن کی عمریں 19 سے 29سال کے درمیان ہے. دوسرے دن ایک نابالغ نوجوان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی. ملزمان کی معاونت کے جرم میں ایک خاتون کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جس نے مبینہ طور پر ملزمین کی مدد کی تھی. جنسی تشدد کا شکار یہ نابالغ لڑکی آج ضلع کے ایک سرکاری اسپتال میں زیر علاج ہے.حالیہ واقعات کی گونج قانون و عدلیہ کے بلند بالا ایوانوں سے ٹکراتے ہوئے واپس ہی آرہی تھی کہ ایک جواں سال خاتون نے ریاستی وزیر دھنجئے منڈے پر 2006 سے لے کر تا حال مسلسل عصمت دری کا الزام عائد کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی کے در و بام کو تہہ و بالا کردیا ہے. مذکورہ خاتون کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ کی فلمی دنیا میں نمایاں مقام دلانے کا لالچ دیتے ہوئے یہ ریاستی وزیر گذشتہ 14 سالوں سے مسلسل اسے اپنے جنسی تشدد کا شکار بنا رہا تھا.
بتایا جاتا ہے کہ مہاراشٹر کے کابینی وزیر دھننجئے منڈے پر انکی ایک رشتہ دار نے عصمت دری کا سنگین الزام لگایا ہے۔خاتون نے اوشیوارا پولس اسٹیشن میں شکایت دی ہے۔ اوشیوارا پولس اسٹیشن کے سینئر پولس انسپکٹر ، دیانند بنگار نے بتایا کہ اوشیوارا پولس اسٹیشن میں ایک خاتون نے شکایت درج کروائی۔ تاہم چونکہ پولس نے اس خاتون کی شکایت کا نوٹس نہیں لیا جس کے سبب خاتون نے ممبئی پولس کمشنر ، ممبئی پولس ، این سی پی کے صدر شرد پوار ، وزیر اعلی ادھوو ٹھاکرے ، سپریہ سولے اور حزب اختلاف کے رہنما دیویندر فڈنویس کو یہ معلومات ٹویٹ کر دی ہے۔
جنسی ہراسانی کی شکار خواتین اور دوشیزاؤں کی چیخیں اسمرتی ایرانی, ریکھا, جیا بہادری, ہیما مالنی, جیا پردہ, ششما سوراج, پنکجا منڈے, نرملا سیتا رمن , ممتا بنر جی ,وسندھرا راجے,مایا وتی جیسی وزراء سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ تم ہو تو ہمارا یہ حال ہے. اگر تم نہ ہوتی تو ہمارا کیا ہوتا. وہ تو خدا خیر کرے کہ ہمارے پردھان منتری اور ریاستی وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بیوی اور لڑکیوں جیسی نعمیت بیش بہا سے محروم ہیں. اگر کسی وزیر کی معصوم بچی کو اپنی ہوس کا شکار بنایا جاتا تو ارباب حکومت اور قانون و عدلیہ کے کان ہاتھی کے کانوں جیسا حرکت میں آ جاتے اور لمحوں میں ملزمان مجرم بنے ہوئے عدالتوں کے کٹہروں کھڑے ہوتے یا پھر پولیس کا عتاب بھگت رہے ہوتے اور یہ بھی طے ہے کہ قانون کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی ہوئی کالی پٹی فورأ سے پیشتر کھل کر غائب ہو جاتی اور انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر عینک ہی نہیں دبیز عدسوں کی وہ دور بین ٹک جاتی جو چشم ذدن میں ہی مجرموں کو گرفتار کرتے ہوئے انھیں سولی پر لٹکا دیتی یا کسی کال کوٹھری میں ٹھونس دیتی.


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں