وہ اکثر یاد آتے ہیں
(والد محترم کی یاد میں ،
اور تمام بے گناہ اسیرانِ امت کے نام)
محبت کے فسانوں میں
دلوں کے اہم خانوں میں
بسے ہیں جو زمانے سے
غموں کی رت مٹانے کی
تمنا دل میں رکھتے ہیں
وہ اکثر یاد آتے ہیں
کہ روز و شب کی خوشیاں بھی
غموں میں آنکھ کے آنسوں
کہیں شوخی کے نغمے بھی
انہیں سے نا مکمل ہیں
وہ بس یادوں میں رہتے ہیں
وہ خوابوں میں بھی آتے ہیں
قلم کا پھول سا رشتہ ہے
جو ہم کو ان سے باندھے ہے
وہ اکثر یاد آتے ہیں
☆☆☆☆☆
دعا ہے یہ مری یا رب
کہ مل جائے وہ روز و شب
مقدر ہو خوشی اپنا
جو بچھڑے ہیں وہ مل جائیں
جو ٹوٹے ہیں وہ جڑ جائیں
جو بکھرے ہیں سمٹ جائیں
جو بگڑے ہیں سنور جائیں
بہاریں لوٹ کر آئیں
خزاں کے دن پلٹ جائیں
جو بچھڑے آشیانوں سے
صدا آئی مکانوں سے
وہ واپس لوٹ کر آئیں
کمی اُنکی ہو اب پوری
☆☆☆☆☆
وہ قیدی قید خانوں کے
مکیں ہیں آسمانوں کے
کہ جن کا ہے یقین محکم
ارادے عزم مستحکم
وہ دنیا کو بدلتے ہیں
جو حق کی راہ چلتے ہیں
وہ اکثر یاد آتے ہیں
وہ اکثر یاد آتے ہیں
یہی مریم صداقت ہے
یہ عالم کی حقیقت ہے
حقیقت ہے حقیقت ہے
از قلم: مریم جمیلہ پرویز خان



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں