*چھ سالہ صبر و عبادت کی روشنی میں پرویز خان کی قلمی فتح: "اسلام درشن" اور "اللہ کون ہے" کی ایمان افروز رونمائی.*
13 جولائی کو سیرت کمیٹی جلگاؤں کے زیر اہتمام روح پرور تقریب، علم و عرفان کے مسافروں کا قافلہ ہوگا جمع۔
جلگاؤں, عقیل خان بیاولی، : تاریخ گواہ ہے کہ مصائب کی کوکھ سے جب صبر، یقین، اور حق کی تلوار نکلتی ہے تو وہ اندھیروں کو چیر کر روشنی کی جانب لے جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی ایک تابناک مثال، جلگاؤں کے پرخلوص اور تخلیقی نوجوان پرویز خان کی ہے، جنہوں نے دس برسوں کی طویل اور کٹھن قید کو شکست دے کر "تبلیغ دین" کے مقدس مشن کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔2001 کے سیمی معاملے میں ممبئی سے گرفتار کیے گئے پرویز خان کو برسوں تک ٹاڈا، دہشت گردی اور دیگر سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ناسک، ممبئی، جلگاؤں اور اورنگ آباد کی جیلوں میں اذیت ناک ایام گزارنے کے بعد بالآخر 2012 میں ہائی کورٹ سے باعزت بری ہوئے۔ والدین کے اکلوتے، چھ بچوں کے والد، پرویز خان نے نہ صرف قید کو صبر و عبادت کا وسیلہ بنایا بلکہ شب بیداریوں اور روحانی استقامت کو تحریری عمل میں ڈھال دیا۔
اسی قید کے دوران دین اسلام کی سچائی کو برادرانِ وطن تک پہنچانے کی نیت سے دو اہم کتابیں تصنیف کی گئیں:
"اسلام درشن" اور "اللہ کون ہے"
یہ کتابیں دین کی تبلیغ، بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ایک زندہ ثبوت ہیں کہ علم و عرفان صرف آزادی کا محتاج نہیں، بلکہ عقیدت، قربانی، اور حق پر یقین کے سہارے ہر حال میں جنم لیتا ہے۔
اب جبکہ قید و بند کی زندگی پیچھے رہ چکی ہے، تو پرویز خان زمین و جائداد کے کاروبار اور کپڑے کی تجارت سے اپنے خاندان کا وقار کے ساتھ کفالت کر رہے ہیں۔ ان کے پانچ بچے زیر تعلیم ہیں، اور دین و وطن کی خدمت کا عزم ویسا ہی روشن ہے جیسا ابتداء میں تھا۔
13 جولائی بہ روز اتوار کو صبح ١١بجے ٹکی ہال میں سیرت کمیٹی جلگاؤں کے زیر اہتمام "اسلام درشن" اور "اللہ کون ہے" کی باوقار رسمِ رونمائی منعقد ہوگی، جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن فرمائیں گے۔ مہمانانِ خصوصی میں مفتی خالد، مفتی فرحان، عبدالکریم سالار، فاروق شیخ، حافظ عبدالرحیم اور شیخ عبداللہ جیسے علم و عرفان کے حامل حضرات شامل ہوں گے۔
یہ صرف ایک تقریب نہیں، بلکہ صبر، علم، دعوت، روحانیت اور سماجی شعور کی ایک اجتماعی گواہی ہے کہ دین اسلام صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ سچائی، علم، امن اور روشن فکر کا پیغام ہے۔یہ کتابیں ان کے قید کی راتوں کی سجدہ ریز تحریریں ہیں، جو آج انسانیت کے لیے پیامِ بصیرت بن کر سامنے آ رہی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں