باپ کی جیب
گاؤں کے کنارے ایک چھوٹا سا گھر تھا جہاں فاطمہ اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا شوہر احمد، ایک دیانتدار اور محنتی مزدور تھا جو دن رات اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے کام کرتا تھا۔ احمد کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اس کے بچے پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنیں اور کامیاب زندگی گزاریں۔ مگر زندگی کے راستے ہمیشہ آسان نہیں ہوتے۔ ایک دن احمد ایک حادثے کا شکار ہوگیا اور اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
احمد کی ناگہانی موت نے فاطمہ کی دنیا ہلا کر رکھ دی۔ وہ جانتی تھی کہ اب اسے اکیلے ہی اپنے بچوں کی پرورش کرنی ہوگی۔ غم کی شدت کے باوجود، اس نے خود کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کے بچے اپنے والد کو ہمیشہ یاد رکھیں اور ان کی دی گئی تربیت کو اپنائیں۔
احمد کے جانے کے بعد، فاطمہ نے اس کی ایک پرانی قمیص کو دیوار پر ٹانگ دیا۔ یہ وہی قمیص تھی جو احمد اکثر پہنا کرتا تھا۔ اس قمیص کو دیکھ کر بچوں کو اپنے والد کی یاد آتی تھی۔ وہ اسے عقیدت سے دیکھتے اور محسوس کرتے کہ ان کا باپ اب بھی ان کے قریب ہے۔
کچھ دنوں بعد، جب بچوں نے ماں سے جیب خرچ کے لیے پیسے مانگے، تو فاطمہ نے مسکرا کر کہا، بیٹا، جاؤ اپنے بابا کی جیب سے لے لو۔
بچے حیران ہوئے، مگر انہوں نے ماں کی بات مانی اور قمیص کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ حیرت انگیز طور پر وہاں چند روپے رکھے تھے۔ بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ بھاگ کر ماں کے پاس آئے اور کہنے لگے، امی، بابا نے واقعی ہمارے لیے پیسے چھوڑے ہیں؟
فاطمہ نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھا اور کہا، ہاں بیٹا، تمہارے بابا تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔
سال گزرتے گئے، اور یہ معمول چلتا رہا۔ جب بھی بچوں کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی، وہ بابا کی جیب سے نکال لیتے۔ فاطمہ محنت مزدوری کر کے پیسے کماتی اور خاموشی سے قمیص کی جیب میں رکھ دیتی۔
یہ طریقہ بچوں کو نہ صرف تسلی دیتا تھا بلکہ انہیں اپنے والد کی محبت کا احساس بھی دلاتا تھا۔ وہ اپنی ضروریات کے لیے کبھی شکوہ نہ کرتے، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کے والد نے ان کا خیال رکھا ہوا ہے۔
بچے اب بڑے ہو چکے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا، علی، ایک کمپنی میں ملازمت کرنے لگا تھا۔ ایک دن اس نے ماں سے کہا، امی، ہمیں آج تک سمجھ نہیں آیا کہ بابا کی جیب میں ہمیشہ پیسے کیسے آتے تھے؟
فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے نرمی سے کہا، بیٹا، وہ پیسے میں رکھا کرتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ تم ہمیشہ یہ محسوس کرو کہ تمہارے بابا موجود ہیں، تاکہ تم ان کی کمی محسوس نہ کرو۔
یہ سن کر سب بچوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ علی نے ماں کے ہاتھ تھامے اور کہا، امی، آج ہمیں احساس ہوا کہ اصل خزانہ تو وہ محبت اور قربانی تھی جو آپ نے ہمارے لیے دی۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہمیشہ بابا کے اصولوں پر چلیں گے اور آپ کی خدمت کریں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں