ظلم کے خلاف ہر حال میں آواز اٹھائیں گے, بے قصور اسیروں کی قانونی لڑائی ملت کے تعاون سے جاری : مولانا حلیم اللہ قاسمی
مہاراشٹر ( ارشد مدنی ) سے خصوصی بات چیت
مولانا حلیم اللہ قاسمی ایک مشکل صدارتی جنگ جیت کر جمعیۃ علماء مہاراشٹر ( ارشد مدنی ) کے صدر منتخب ہوئے ہیں ؛ مشکل اس معنیٰ میں کہ ان کے خلاف کئی محاذ کھلے تھے ، اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گیے ۔ لیکن لوگوں نے ان پر بھروسہ جتایا ، اور انتخاب کا نتیجہ اُنہی کے حق میں آیا ۔ صدر بننے کے بعد وہ پہلے کے مقابلے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ جمعیۃ کے کاموں میں جُٹ گیے ہیں ۔ بلکہ اب اُن کے سَر اسیروں کے مقدمات کی نگرانی کا کام بھی آ پڑا ہے ، پہلے یہ کام مرحوم گلزار احمد اعظمی کیا کرتے تھے ۔ جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے کاموں میں مولانا حلیم اللہ قاسمی ، اپنے قانونی مشیر ایڈوکیٹ شاہد ندیم کے ہمراہ دن رات لگے رہتے ہیں ، جیسے کبھی مرحوم گلزار صاحب لگے رہتے تھے ۔ گزشتہ پیر کو جب میں انٹرویو کے لیے جمعیۃ کے دفتر پہنچا تو مولانا موصوف اُسی کرسی پر بیٹھے تھے ، جس پر کبھی اعظمی صاحب بیٹھا کرتے تھے ، ساتھ میں شاہد ندیم بھی تھے ۔ ماحول میں ہلچل تھی ، مدارس کے سفراء کا تصدیق ناموں کے حصول کے لیے تانتا بندھا ہوا تھا ۔ لیکن جہاں ہم سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے ، وہاں قدرے سکون تھا ۔ ذیل میں حضرت مولانا سے گفتگو کے اقتباسات پیش ہیں ۔
سوال : جمعیۃ علماء مہاراشٹر ( ارشد مدنی ) کے صدر کی حیثیت سے آپ کا پہلا ٹرم اب تک کیسا رہا ؟ انتخابی عمل تو انتہائی دشوار تھا ۔
جواب : ہاں ، یہ سچ ہے کہ انتخاب کے موقعہ پر کچھ افراد نے گڑبڑی کرنے کی کوشش کی تھی ، لیکن وہ ناکام رہے ۔ جمعیۃ علماء کے ۲۵ لاکھ ممبران میں منتظمہ کے ڈھائی ہزار ممبران ہیں ، جنہوں نے میرا انتخاب کیا ۔ مالیات کا مسٗلہ اٹھا کر انتخاب کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ، مگر یہ کوئی مسٔلہ ہی نہیں تھا ، الزامات جھوٹے تھے ، اور لوگ اس بات سے خوب واقف تھے ۔
سوال : کچھ لوگ ہنوز مالیات کا مسٗلہ اُٹھائے ہوئے ہیں !
جواب : دیکھیں ، مالیات کے تعلق سے میں نے مختلف میٹنگوں میں یہ بات کہی ہے کہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر کا حساب پورے طور پر صاف و شفاف ہے ، کوئی بھی ذمہ دار شخص جمعیۃ علماء مہاراشٹر ( ارشد مدنی ) کے دفتر جب چاہے آکر حساب کتاب دیکھ سکتا ہے ۔
سوال : گویا کہ ٹرم خیریت سے گزر رہا ہے ؟
جواب : بعد میں باہر کے کچھ لوگوں نے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ، لیکن الحمدللہ جماعت کے ذمہ داران کا ، خاص طور پر حضرت مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم اور دیگر بڑوں کا بھروسہ حاصل رہا ، اور اب بھی حاصل ہے ۔
سوال : صدر کی حیثیت سے آپ نے کن کاموں کی شروعات کی ہے ؟
جواب : ہم نے پہلی ورکنگ کمیٹی بلائی تو ترجیحی بنیاد پر چار کام کرنے کا فیصلہ کیا ، پہلا کام جو مرحوم گلزار اعظمی کی سربراہی میں چلا آ رہا تھا یعنی بے قصور اسیروں کی قانونی پیروی کا ۔ مرحوم گلزار صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور الحمدللہ اس میں ہمیں کامیابی مل رہی ہے۔
سوال : قانونی محاذ پر کیا ہو رہا ہے ؟ کچھ تفصیل بتائیں ۔
جواب : ہم نے گزشتہ ایک سال کے دوران مختلف الزامات میں ماخوذ ۷۹ افراد کو رہا کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے ، جن میں سے ۴۵ افراد پر دہشت گردی کے الزامات تھے ۔ اس کے علاوہ آئینی مقدمات بھی ، جیسے عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون ، لو جہاد ، طلاقِ ثلاثہ قانون ، ماب لنچنگ ، قومی کمیشن برائے تعلیمی ادارے جنہیں پہلے جمعیۃ علماء ہند دیکھا کرتی تھی ، اب جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے ذمے آ گیے ہیں ۔ یہ حضرت مولانا ارشد مدنی کی ہدایت تھی ، ہم نے اس پر عمل شروع کر دیا ہے ۔
سوال : اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت ہوئی ہے؟
جواب : سنبھل کی تاریخی جامع مسجد کے واقعہ کے بعد ، جیسا کہ سب جانتے ہیں فرقہ پرست اس پر دعوے کر رہے ہیں ، ہم سپریم کورٹ پہنچے اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو مینشن کیا ، جس کی بنیاد پر چیف جسٹس نے مسجدوں اور درگاہوں وغیرہ کے تمام سروے کے اقدامات پر پابندی لگا دی ہے ۔ اجمیر شریف کی درگاہ پر بھی دعویٰ کیا گیا ہے ، اس کے سروے پر بھی پابندی لگی ہے ، مگر وہاں کے جج نے کارروائی شروع کی ہے ، اس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے ۔
سوال : ایک بار پھر دہشت گردی کے مقدمات کی طرف آتے ہیں ۔ اب تک ان مقدمات میں کیا صورتحال رہی ہے؟
جواب : ابھی حال ہی میں پٹنہ ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ آیا ہے ۔ چار ملزمین کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئی تھیں لیکن انہیں جمعیۃ نے پھانسی سے بچایا ہے ۔ فی الحال ہم دہشت گردی اور فسادات کے 485 ملزمین کو قانونی امداد فراہم کر رہے ہیں ۔ ٹرائل کورٹ میں 54 مقدمات کی پیروی کی جا رہی ہے جن میں 186 افراد کو ملزم بنایا گیا ہے ۔ ہائی کورٹ میں 39 مقدمات ہیں جن میں ملزمین کی تعداد 210 ہے ۔ سپریم کورٹ میں 11 مقدمات کی پیروی ہو رہی ہے جن میں 89 ملزمین ہیں ۔ مزید بتا دوں کہ 80 افراد کو ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے اور 135 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ ہم یہ سب مقدمے لڑ رہے ہیں اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ہمیں ان مقدمات میں کامیابی ملے گی ۔
سوال : ترجیحی بنیاد پر مزید کون سے کام ہیں؟
جواب : ایک کام شولاپور میں لڑکیوں کے لیے جونیئر کالج کے قیام کا ہے ۔ دو سال پہلے ایک صاحبِ خیر نے جمعیۃ علماء کو چھ ایکڑ زمین دی تھی ، حضرت مولانا ارشد مدنی کے حکم سے اس زمین پر لڑکیوں کے لیے ایک اسکول اور کالج کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں ایک کمیٹی کی تشکیل بھی کر دی گئی ہے جس نے شولاپور جاکر مقامی لوگوں سے مشورہ کیا اور یہ بات سامنے آئی کہ لڑکیوں کے لیے جونیئر کالج کی وہاں واقعی اشد ضرورت ہے ۔ کالج کا نقشہ بنانے کے لیے مختلف آرکی ٹیکٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ، ان شا اللہ جلد ہی تعمیری کام شروع ہو جائے گا ۔
سوال : کیا اب یہ ضروری نہیں ہو گیا ہے کہ لڑکیوں کے لیےایسے کالج اور اسکول سارے مہاراشٹر بلکہ سارے ملک میں کھولے جائیں؟
جواب : بالکل ، ہم اس کی ترغیب دیتے رہتے ہیں ۔ نالا سوپارہ جمعیۃ نے بھی ایک جگہ پونے تین کروڑ روپیے میں خرید لی ہے جس پر اسکول اور اسپتال کی تعمیر کا ارادہ ہے ۔ ہم نے جمعیۃ کی تمام صوبائی اکائیوں سے کہا ہے کہ اس سلسلے میں اپنے اپنے صوبوں میں کوشش کریں ۔
سوال : تیسرا کام؟
جواب : تیسرا کام مکاتیبِ دینیہ کا ہے ۔ ہمارے دینی تعلیمی بورڈ کے زیر انتظام ودربھ میں مکاتیبِ دینیہ چل رہے ہیں اور ان کی ضرورت خاص طور پر ودربھ اور خاندیش میں ہی زیادہ ہے ۔ اس کی وجہ وہاں کی بے انتہا غربت ہے ۔ وہاں کی ایک خاص برادری جسے تڑوی پٹھان کہا جاتا ہے ، اور جو جلگاؤں ، بلڈھانہ ، آکولہ اور امراوتی میں آباد ہے دین سے بہت دور ہے ۔ ان کے گھروں میں مورتیاں لگی ہیں جن پر یہ صبح و شام مالا چڑھاتے ہیں ۔ انہیں لالچ دی گئی ہے کہ تم اپنے بچوں کے نام غیر مسلموں کی طرح رکھو تو ہم انہیں پڑھائیں گے اور نوکری بھی دلوائیں گے ۔ یہ سب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اسی لیے ہمارے نزدیک مکاتبِ دینیہ کی شدید ضرورت ہے ۔
سوال : یہ مکاتبِ دینیہ کیا ارتداد پر روک لگانے کا کام بھی کر سکتے ہیں؟
جواب : جی ، یہ مکاتبِ دینیہ کا قیام اور لڑکیوں کے لیے علاحدہ اسکول و کالج ان شا اللہ ارتداد سے بچائیں گے ۔ یہ بے دینی سے بچنے کا ایک موثر ذریعہ ہوگا کیونکہ ارتداد کے مختلف اسباب میں ایک بڑا سبب بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت کا نہ ہونا ہے ۔ اور دوسرا بڑا سبب مخلوط تعلیمی نظام ہے ۔
سوال : ایک چوتھا ترجیحی کام رہ گیا؟
جواب : وہ اصلاح معاشرہ کا کام ہے ۔ ہم اصلاح معاشرہ کی مہم چلاتے ہیں لیکن اب ضرورت ہے کہ یہ مہم ترجیحی بنیاد پر چلائی جائے ۔
سوال : آج ملک کے جو حالات ہیں ان میں مسلمان کیا کریں ؟
جواب : آج کے حالات میں مسلمانوں کو بہت سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا اور جذباتیت سے اور جذبات سے کھیلنے والوں سے بچنا ہوگا ۔ اور خاص طور سے دین سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا ہوگا ۔
سوال : مرحوم مولانا مستقیم اعظمی اور گلزار احمد اعظمی مرحوم کے بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ نیز آپ کے عزائم کیا ہیں؟
جواب : اللہ ان دونوں کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے ۔ دونوں کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ دونوں فولادی ارادے کے انسان تھے ، ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ بلکہ جو کچھ سیکھا ہے انہی سے سیکھا ہے ۔ رہی عزم کی بات تو ہم ظلم کے خلاف ہر حال میں آواز اٹھائیں گے یہ دیکھے بغیر کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے ۔ اور اس کام میں الحمد للہ ملت ہمارے ساتھ پہلے بھی تھی اور آج بھی ساتھ ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ بے قصوروں کی لڑائی میں ملت کا تعاون ان شا اللہ پہلے ہی کی طرح حاصل رہے گا ، یہ قانونی لڑائی ان ہی کے تعاون سے جاری ہے ۔ یہ سارے کام اہلِ خیر کے تعاون سے ہی ہوتے ہیں ، جمعیۃ کا تو اپنا کچھ ہے نہیں ۔ ہم ایک ہاتھ سے لیتے ہیں دوسرے ہاتھ سے دے دیتے ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں