src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 18 دسمبر، 2024

 حماة کی آزادی پر شامی اتنے خوش کیوں؟

فتح تو حلب اور ادلب بھی ہوئے، مگر شامی عوام نے اتنی خوشی نہیں منائی، جو ابھی حماۃ میں دیکھی جا رہی ہے۔ نوجوان ہی نہیں، بچے، بوڑھے، مرد وخواتین سب جشن منا رہے ہیں۔ خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں۔ مسرت کے آنسو، تکبیر کی صدائیں اور سجدہ ریز جبین نیاز۔ آخر کیوں؟ حالانکہ ابھی مستقبل کا کچھ نہیں پتہ، حالات کا دھارا کوئی بھی رخ اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن اس کی ایک وجہ ہے، اہل حماۃ کا معاملہ دیگر شامیوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس شہر کی ایک بھیانک تاریخ ہے، نہایت ہی تلخ یادیں، خوں آشام شامیں، خونچکاں سانحات۔ بہت زیادہ پرانی نہیں، چند دہائیوں کی بات ہے، ابھی تک حماہ کی فضاؤں میں ان عزت مآب حاملہ خواتین کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں، جن کے پیٹ چاک کر کے بچے نکال لیے گئے۔ یہ 1982ء کی بات ہے کہ جب حماۃ کو اخوان کے مقتل میں تبدیل کر دیا گیا۔ ایک ایسا سلاٹر ہاؤس، جس میں 27 دن میں ایک لاکھ کے قریب انسانوں کو ذبح کر دیا گیا۔ حماة کے باسی ان ہولناک مناظر کو کیسے بھول سکتے ہیں، جب حافظ الاسد کے درندوں نے بچوں، عورتوں، حاملہ ماؤں اور معصوم شہریوں کا بے دریغ قتل عام کیا تھا۔ خواتین کے ہاتھ کاٹے گئے، مردوں کو بے رحمی سے ان کے بچوں کے سامنے ذبح کیا گیا۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب حماة کے شریف اور بہادر عوام نے اسدی جبر کے خلاف بغاوت کی۔ نتیجتاً، قابض حکومت نے اپنی جنونیت کے تحت حماة میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ یہ خونریز مہم 27 دن تک جاری رہی۔ اسدی فوجیوں نے بھاری توپوں، ٹینکوں اور دھماکہ خیز ہتھیاروں سے گھروں، مساجد، اسپتالوں، بازاروں اور ہر ذی روح کو نشانہ بنایا۔ پورے شہر کو سیل کردیا گیا، ہزاروں اسدی فوجیوں نے اسے گھیر لیا۔ عام شہریوں پر بھاری گولہ باری کی گئی، عورتوں کی عصمت دری کی گئی، بچوں اور بوڑھوں کو چاقو اور ڈنڈوں سے مار کر لاشوں کو جلایا گیا۔

ان بدترین مظالم میں بعض ایسے ہیں، جن کی مثال ملنی مشکل ہے، مثلا: عورتوں کو قتل کرکے گلیوں میں پھینک دیا گیا۔ ان کی آنکھیں نکالی گئیں۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر بچے نکال دیئے گئے۔ چھوٹی بچیوں کو اغوا کرکے ان کی عزتیں لوٹ لی گئیں اور پھر آج تک ان لڑکیوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کہاں غائب کر دی گئیں۔ خواتین کو سرعام سڑکوں پر برہنہ کرکے ان کا ریپ کیا گیا۔ یہاں تک کہ اجتماعی ریپ کے لیے مساجد کا انتخاب کیا گیا۔ جی ہاں، مساجد کے منبر و محراب کے سامنے مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹی جاتی تھیں اور ان کے مردوں کی موجودگی میں۔ پھر انہیں قتل کرکے برہنہ لاشوں کو گڑھوں میں ڈال دیا جاتا۔ خواتین کی عصمت کے دوران مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز آن کئے جاتے اور ان کے ذریعے مظلوموں کی چیخیں سنائی جاتیں تاکہ پورے شہر کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ اب تک میرے علم میں علم نہیں ہے کہ کہیں ایسا ہوا ہو۔

رفعت الاسد کا ظلم:

27 دنوں کی تباہی کے بعد، جب کرفیو ہٹایا گیا تو رفعت الاسد نے شہر کا دورہ کیا۔ لوگ نمازِ جمعہ کے لیے نکلے تو اس نے طنزیہ انداز میں کہا: "کیا حماة میں ابھی بھی مرد باقی ہیں؟"

پھر ہزاروں مردوں کو جمع کرکے سریحین قبرستان میں لے جایا گیا، جہاں انہیں ایک ساتھ قتل کیا گیا۔ اندازاً 5000 افراد کو صرف ایک دن میں شہید کر دیا گیا۔

بچوں کا قتل:

چند بچے جو درختوں پر چڑھ کر چھپ گئے تھے، انہیں بھی تلاش کرکے بے دردی سے مار دیا گیا۔ ان کے سروں کو درختوں پر لٹکایا گیا تاکہ مزید دہشت پھیلائی جا سکے۔

زخمیوں پر تشدد:

زخمیوں کو اسپتال میں لے جانا بھی ممکن نہ رہا، کیونکہ اسدی فوج اسپتالوں میں گھس کر ہر زخمی کو قتل کر رہی تھی۔

تباہی کا جائزہ:

60 سے زائد مساجد تباہ کی گئیں۔

75 فیصد شہر ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔

15,000 سے زائد افراد لاپتہ ہوئے۔

60 ہزار سے زائد شہری شہید ہوئے۔

یہ سب کچھ صرف 27  دن میں ہوا۔

دردناک یادیں:

حماة کے قتل عام کی داستان اتنی بھیانک ہے کہ بیان کرتے ہوئے دل کانپ اٹھتا ہے۔ یہ المیہ نہ صرف شامی عوام کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک سیاہ باب ہے۔

شامی عوام کا درد دنیا کے کسی بھی درد سے مختلف ہے۔

اور اسدی خاندان کی سفاکیت دنیا کے ہر ظلم سے زیادہ ہے۔ اس لیے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ نتن یاہو کے جرائم بھی اسد خاندان کے سامنے ہیچ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل حماۃ جشن منا رہے ہیں۔


ضیاء چترالی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages