”مجھ پر قاتلہ حملہ سیلانی چوک میں نشہ آور اشیاء کے کاروبار اور انکی پشت پناہی کرنے والے پولس آفیسران کے خلاف تقریر کا شاخشانہ“
”جب کعبہ پر میری پہلی نظر پڑی تو میں نے قوم کے لئے شہادت کی دعا مانگی تھی“
”گولی عبدالمالک کو لگی اور چالیس پولس والے شیخ آصف کے گھر“ : عبدالمالک سابق میئر
عبدالمالک نے شہریان کی محبت کے احساس کو تشکر آمیز انداز میں نم آنکھوں کے ساتھ فائرنگ واردات کی روداد سنائی
مالیگاٶں (24 جولاٸی) ۔ ”اللہ رب العزت کے بعد مالیگاٶں کے ان تمام دوست احباب ماں بہنوں کا شکریہ جنہوں نے میری صحت یابی کی دعائیں کیں روزے رکھے نمازیں پڑھیں صدقہ و خیرات کیا جس کی بدولت اللہ نے مجھے نئی زندگی عطا کی ۔ میں اپنے اہل خانہ کے سامنے اپنی اس نئی زندگی کو شہر و قوم کی خدمت کے لیۓ وقف کرتا ہوں اور پہلے سے زیادہ شہر میں سرگرم رہوں گا اور مظلوموں کا ساتھ اور قوم کے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کا کام کرتا رہوں گا ۔ دوران علاج کئی مرتبہ مختلف یتیم خانوں کے بچے ملنے آئے انہوں نے بتایا کہ جب سے آپ پر فائرنگ ہوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گذرا کہ آپ کی صحت یابی کی دعا کی اپیل کے ساتھ ہم لوگوں کے لئے کھانا نہ آیا ہو ۔ لیکن کبھی کسی کا نام سامنے نہیں آیا کہ یہ کون بھیج رہا ہے ۔ میں ان تمام احباب کا اپنی اور اپنے خانوادے کا ممنون اور مشکور ہوں اور مرتے دم تک ان تمام شہریان کا احسان مند رہوں گا “ ۔
ان شکر آمیز تمہیدی کلمات کو ادا کرتے ہوئے عبدالمالک سابق میئر کا لہجہ فرط جذبات سے گلوگیر ہوگیا ۔ موصوف 27 مئی کو اپنے اوپر جان لیوا قاتلانہ حملے کے بعد آج پہلی مرتبہ خیابان نشاط چوک میں عوام کے جم غفیر سے مخاطب تھے ۔
انہوں نے فائرنگ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 27 مئی کو شہر کے شمالی حصے کے دورے سے واپسی پر آگرہ روڈ پرنس میڈیکل کے مالک عبدالرحمان شاہ نے انہیں چائے کی دعوت دی ۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک موٹر سائیکل انجن بند کئے بغیر پانچ سات فٹ کے فاصلے سے ہمارے پاس رکی ۔ اور پیچھے بیٹھے شخص نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ میں اور میرے ساتھی کچھ سمجھ پاتے کہ ایک گولی میرے سینے میں پیوست ہوگئی یوں لگا جیسے گرم گرم سلاخ کسی نے میرے سینے میں پیوست کردی ہو ۔ سینے میں گولی لگنے کے باوجود میں حملہ آور پر لپکا کہ ایک گولی میرے پیر میں لگ گئی اور میں گر پڑا ۔ حملہ آور اور میرا فاصلہ دو تین فٹ کا رہ گیا تھا اسنے میرے سر کا نشانہ لیا اور فائر کردیا ۔ اللہ کی مرضی اور حکمت سے میرا ہاتھ اوپر اٹھا اور میرے سر کا نشانہ لے کر چلائی جانے والی گولی میرے ہاتھوں میں لگی مجھے لگا کہ میرا اس دنیا سے جانے کا وقت قریب آگیا ہے ہاسپٹل جانے کے لئے میں نے ٹو وھیلر پر بیٹھ کر کلمہ شہادت پڑھا اور دل میں کہا کہ اے اللہ میں تیری مرضی میں راضی ہوں ۔
مزید تفصیل بتاتے ہوئے عبدالمالک نے کہا کہ جب میں ہاسپٹل جارہا تھا تو کئی جگہ راستے میں کچھ لوگ ہجوم در ہجوم کھڑے تھے کہ میرا کام تمام کیا جاسکے ، لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق اللہ نے میری جان کی حفاظت کی ۔ اور مجھے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کردیا گیا ۔ میرے آپریشن سے قبل ہی شہر ایس پی انیکیت بھارتی نے کیس ہی حل کردیا تھا اور ایک بوگس ملزم کو پکڑ کر زمین جائیداد کا تناعہ بتا کر سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن مجھ پر ہوئے قاتلانہ حملے کی وجہ سیلانی چوک کی وہ تقریر تھی جس میں میں نے قوم کے مستقبل کے معمار نوجوانوں کو نشہ کا عادی بنانے والوں اور ایسے نشیلی اشیاء کا کاروبار کرنے والوں سے ہفتہ لے کر انکی پشت پناہی کرنے والے پولس والوں کے خلاف کاروائی کرنے کا اعلان کیا تھا ۔
عبدالمالک میئر نے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہونے کے بعد بھی شہر کو پرامن رکھنے کی اپنی ذمہ داری نبھائی اور اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ گھبراؤ مت میں اچھا ہوں ۔ عبدالمالک میئر نے پولس کے رویے سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسدالدین اویسی ، اعجاز بیگ ، یوسف الیاس صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کیا ۔
شہر کے ایم ایل اے مفتی اسمعیل نے ایوان میں آواز اٹھائی عبدالمالک صاحب نے انکا اس امید پر شکریہ ادا کیا کہ وہ عام انسانوں پر ہورہے مظالم کے خلاف بھی آواز اٹھائیں گے ۔
مزید اظہار خیال کرتے ہوئے عبدالمالک نے کہا کہ گولی لگی عبدالمالک کو اور چالیس چالیس پولس والے شیخ آصف کے گھر تعینات ہوگئے، آج بھی یونس عیسی کے تمام بچے مجاہدوں کی طرح اکیلے گھوم رہے ہیں لیکن پولس سے پہلے معلوم رہنے کا دعوی کرنے والے باڈی گارڈ لگاکر گھوم رہے ہیں ۔ ہم اور ہمارے خانوادے میں ڈر اور خوف کا نام نہیں ہے ۔ اور ہم پہلے سے بڑھ کر قوم و ملت کی خدمت کرتے رہیں گے ۔
نشہ کے خلاف اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے بتایا کہ آج اسکولوں کے اطراف نشہ آور ادویات کی فروخت دھڑلے سے جاری ہے ۔ کم عمری سے ہی نوجوانان ملت کو ذہنی اور شعوری فکر کو نشہ کا عادی بناکر تباہ کیا جارہا ہے ۔ آگے چل کر یہ نوجوان چوری اور لوٹ پاٹ کا حصہ بنتے ہیں ۔ اور پھر سیاست میں غنڈہ گردی کرنے والے لیڈر انکو استعمال کرتے ہیں ۔ پولس انتظامیہ کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح ندی کے اُس پار نشہ نہیں ملتا اسی طرح مسلم علاقوں سے بھی نشہ آور اشیاء کی فروخت کو بند کروایا جائے ۔ اور ایسے افراد جو کہ اس قبیح کاروبار میں ملوث ہیں وہ بھی اپنی دینی ، ملی ، سماجی اور قومی ذمہ داری سمجھ کر ایسے کاروبار سے توبہ کریں جس سے آنے والی نسلیں برباد اورقوم کا مستقبل تباہ ہورہا ہے ۔
انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام مشہور نظم میں باغی ہوں میں باغی ہوں کو پورے جوش و خروش سے پڑھ کر آئندہ کے لئے اپنے عزائم کی پختگی کا عندیہ دیا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں