src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> یوگا کثرت ورزش  یا شرک         - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 29 جون، 2024

یوگا کثرت ورزش  یا شرک        

 




یوگا کثرت ورزش  یا شرک

       



تحریر: منزہ فردوس،امراوتی 





یوگاسوریہ نمسکاریوگا دراصل لفظ یوگ سے بناہے جس کے معنیٰ اکٹھا ہونے یا ملنے کے ہیں آتما، پرماتما اور شریر کے مربوط ہونے کا نام ہے۔ یوگا کی شروعات کرشن چندر نے کی تھی جسے پہلا یوگی کہا جاتا ہے۔ یہ تقریباً 26000سال قبل اس کی شروعات ہوئی تھی۔ جسے ست یوگ کہا جاتا ہے بعد میں پتانجلی نے اسے codified کیا ہے۔ اسے آسنوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے بارہ آسن بتلائے جاتے ہیں، جس میں شروعات سوریہ نمسکار سے ہوتی ہے۔



 سوریہ نمسکار ہی سب سے اہم آسن ہے جسکا وقت طلوعِ آفتاب، غروبِ آفتاب یا پھر نصف النہار کے وقت۔ ان تین وقتوں کے علاوہ سوریہ نمسکار ممکن نہیں۔ اسکا مطلب ان تین اوقات کے وقت ہی یوگا کیا جاسکتا ہے۔


 سورج کی پوجا:ویدک دور میں سورج کی پوجا کی جاتی تھی یہاں تک کہ رام چند ر کے بارے میں آتا ہے کہ انہیں سورج سوریہ ونش کا بادشاہ مانا جاتا تھا۔ اسی لیے سوریہ ونشی با ضابطہ ایک نسل ہے جو چلی آرہی ہے جن کا تعلق برہمنوں سے ہے۔ تاریخ میں قوم سبا کے تعلق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی سورج کی پرستش کر تی تھی۔ سورج کے وارثوں میں فرعون کا نام بھی ماضی کی تاریخوں میں ملتا ہے۔ جس کی پرستش کی جاتی تھی۔ فرعون، ملکہ سبا، رام چند ر گویہ سورج کی نسل سے مانے جاتے تھے عوام ان کی پرستش کرتی تھی۔


رگ وید میں سورج کی تعریف کرکے، اس کی پرستش کا بیان ہے۔ " یہ چمکدار خدا، اے سورج، آسمانوں کے پرے بڑی جگہ تو ہے۔ کرنوں سے دنوں کو ملاتا ہے اور گذرتی قوموں کا رکھوالا ہے تو تمام کمزوریوں کو دور کرنے والا ہے اور بیماریوں سے شفاء  دینے والا ہے۔ ہم تجھ میں دھیان گیان کرتے ہیں کہ ہماری عقلمندی بڑھے "پراچین کال میں کئی سورج کے مندر بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ اڑیسہ، گجرات، کشمیر، آندھرا پردیش میں بالخصوص   8سے13صدی عیسوی کے درمیان بنائے گئے تھے۔ شری راجیو جین نے "سمپرن یوگ ودھیا"میں یہ بات لکھی ہے ہندو مذہب میں سورج کو خدا مان کر پوجا جاتا ہے۔ کیونکہ سورج انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ توانائی سے بھرپور ہے "اوم ساوتر نما" اس کے معنیٰ اے دنیا کے بنانے والے میں تجھے نمن کرتا ہوں سورج کو دنیا کا بنانے والا تسلیم کیا جاتا ہے۔ 



سورج کے سامنے نمن کے طریقے کو یوگا کہا جاتا ہے۔ جس سے بقول راجیو جین احساسات، روح، خیالات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے اور انسان کو مکتی ملتی ہے۔ بھگوت گیتا کے چھٹے باب میں یوگا کا خاص ذکر ہے۔ گیتا دراصل کرشن کے بیانات کا مجموعہ ہے ارجن کو کرشن یو گا کی فلاسفی سمجھا تا ہے اسے اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے موہن داس کرم چند گاندھی بھی یوگا کے حامی رہے وہ دانشمندی روح کی بالیدگی اور جسم کی مکتی کے قائل ہیں ان تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یوگا ایک طریقہ عبادت ہے نہ کہ کوئی ورزش و کسرت کا عمل۔

مسلمانوں کو قرآن حکم دیتا ہے کہ: دن رات اور سورج چاند بھی  ( اسی کی )  نشانیوں میں سے ہیں  تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو  بلکہ سجدہ اس اللہ کے لئے کرو جس نے سب کو پیدا کیا ہے  اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ 

  مخلوق کے سامنے جھکنے کے بجائے ان کے خالق کے سامنے جھکنے کا حکم دیا جارہا ہے طلوع غروب آفتاب اور نصف النہار کے وقت سجدے کی اجازت مسلمانوں کو نہیں ہے  یعنی وہ اپنی نماز و، سجدہ بھی ان اوقات میں نہیں کر سکتے تو سورج کونمن کیسے کر سکتے ہیں۔ ، مسلمان اسے  شرک مانتا ہے

عمرو،بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی روایت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ لائیں ہیں۔جس میں طلوع و غروب اور نصف النہار کے اوقت میں نماز پڑھنے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ سوریہ نمسکار چھوڑ کر یوگا کیا جائے صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے۔ سوریہ نمسکار چھوڑ کر یوگا کیا جائے تو یہ ایک قوم کے طریقہ عبادت کی نقالی ہوگی اور تشبہ بقوم میں شمار کی جائیگی ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے

" صحت کے لیے 4% والی الکحل بیئر فائدہ مند ہے کیا ہم اسے استعمال کرسکتے ہیں؟ صحت کے ساتھ اسلامی اخلاقیات کے اچھے ہونے پر بھی زور دیتا ہے۔ صرف اچھی صحت کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ مسلمانوں نے اپنے دور میں نماز و روزہ جو اچھی صحت کے لئے آسان نسخے ہیں کبھی اپنی غیر مسلم عوام کے لیے لازمی قرار نہیں دیا۔

موجودہ حکومت نے 21 جون جوہیڈ یگوار سے متعلق خاص دن ہے اسے دنیا پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ اسکولوں، اسپتالوں، جیلوں، سرکاری دفاتر میں یوگا کروایا گیا اسکول میں نہ جانے کتنے مسلم ،عیسائی پارسی، دلت سکھ بچوں نے اسے کیا ہوگا۔ دوسروں کو چھوڑ دیجئے کیا مسلم بچے جنہیں خدا کا شعور نہیں ہے غیرخدا کی پرستش تکرنے لگ جائیں گے۔ اور بڑے ہو کر شعوری راہ اختیار کریں گے۔ اگر یہ یوں ہی چلتا رہا  تو آئندہ  100سال کے فاصلے پر ہماری نسلیں کہاں ہو گئی پتہ نہیں۔  

حضرت یعقوب علیہ السلام جب موت سے قریب تھے تو اپنے کنبے کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا۔کیا ( حضرت ) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب  انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آبا و اجداد ابراہیم ( علیہ السلام  ) اور اسماعیل ( علیہ السلام  ) اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار رہیں گے ۔

یہاں ایک باپ کو مستقبل میں اپنے بچوں کی فکر کیا ہے؟ کھانے ،کمانے، تعلیم، منصب، گھر کاروبار کی نہیں۔ صرف اور صرف یہ کہ میری اولاد اس مشن پر زندہ رہے جس پر میں چل رہا ہوں جب بچے نے کہا ہم اس خدا کو مانیں گے جس کی پرستش آپ اور آپکے آباءواجداد کرتے رہے، اس وقت انہیں سکون سے موت آئی ۔ہم اپنے بچوں کے بارے میں کتنے فکرمند ہیں؟ حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں اورجب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا  بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔یہاں بھی حضرت لقمان اپنے بیٹے کو شرک سےروک رہے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بچوں کو توحید کی تعلیم یاد دلا رہے ہیں اور  شرک سے روکا جا رہا ہے۔اپنی نسلوں کو مسلمان رکھنے کے لیے یہ جو قرآنی واقعات میں والد  کا عمل ہے ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ہمیں کس طرح کی فکرکرنی چاہیے اس پر امت کو غور و فکر کر کے اقدامی فیصلوں پر آنا ہی ہوگا۔

عقائد کی گمراہی سے تمدن کج رو ہو جاتے ہیں۔ تہذیب کھوکھلی اور کلچر کرپٹ ہو جاتے ہیں۔  الحمدللہ! مسلمانوں کی تہذیب و تمدن جس حد تک بھی بچا ہوا ہے وہ اللہ کے فضل کے بعد ان کی اعتقادی قوت  ہے جو اس کا دفاع کر رہی ہیں۔ وندے ماترم سرسوتی وندنا سوریہ نمسکار یوگا جیسے ڈراموں سے ان کا اندرون بھی متاثر ہوگا بیرون کو بگڑتے دیر کتنی لگتی ہے۔ جب کہ یہ ڈرامے  سیاسی و حکومتی سطح سے وارد ہو رہے ہیں تو اس سے بچنا انتہائی ضروری ہو جاتا ہے۔ اپنی کوششوں میں امت میں بیداری کے ذریعہ اللہ کے فضل کے راستے اس کی جناب میں دعا شاید کچھہ ہمیں اندھیروں کو دور کرکے روشنی کی کرنوں سے ہم آغوش کر سکے۔  کوشش کرنا ہمارا کام ہے نتائج مرتب کرنا اللہ تعالی کا اختیار ہے سو ہمیں اپنا کام خلوص نیت جہد مسلسل مایوس ہوئے بغیر کرتے چلے جانا ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages