مالیگاؤں میں ڈراپ آؤٹ کا سلسلہ دراز !
کیا نیاز احمد مالیگ, حضرت صابر نورانی اور حاجی ذاکر کی طرح شہر میں کوئی سر سید کیوں نہیں ؟
تحریر :خیال اثر (مالیگاؤں)
9271916150 موبائل
ان دنوں تعلیم و تعلم فرائض منصبی کی بجائے ایسی صنعت میں تبدیل ہو گیا ہے جس میں کسی خسارے کی بجائے فائدے ہی فائدے نہیں بلکہ بے بے شمار فوائد حاصل ہیں. تعلیم کو آج کل اتنی مہنگی بنا دیا گیا ہے کہ بچوں کو اعلی تعلیم سے روشناس کرانا غریب والدین کے بس کی بات نہیں رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈراپ آؤٹ کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے. چند تنظیمیں اپنی تشہیر کے لیے کتابوں اور بیاضوں کی تقسیم کرکے خوش ہو لیتی ہیں. اسی طرح چند تنظیمیں ہیں کہ اعلی تعلیمی مسابقتی امتحانات کی کوچنگ کرکے شہرت دوام حاصل کرنے کے در پے رہا کرتی ہیں مگر پرائمری نظام تعلیم سے لے کر ہائر سیکنڈری ذریعہ تعلیم اتنا مہنگا ترین اور دشوار گزار بنا دیا گیا ہے کہ ان تنظیموں کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے ہی وہ دم توڑ جاتا ہے. ناقص ذریعہ تعلیم اور روپیے کے بل بوتے پر نااہل مدرسین کی تقرری ملک کے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے خوابوں کا قتل کرنے کے در پے ہے. زمانہ آج کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے لیکن ہم ہیں کہ وہی لکیر کے فقیر بنے سانپ گزر گیا ہے لیکن لکیر پیٹے جارہے ہیں. چند کتابوں اور بیاضوں کی تقسیم کرکے اپنی خود کی خود نمائی کا جلوہ بکھیرنے والے اصحاب خیر اور ملی سماجی و فلاحی تنظیموں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے. ڈراپ آؤٹ کا بڑھتا ہوا سلسلہ آج اپنے کناروں کو توڑ کر گلیاروں ہی نہیں بلکہ دہلیز تک آن پہنچا ہے. سماجی ملی و فلاحی تنظیموں کو آج سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے. چند عدد کاپیاں اور کتابیں تو مزدور پیشہ افراد بھی کسی نا کسی صورت خرید ہی لیتے ہیں مگر آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مخیر حضرات اور تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ کچھ بچوں کو اس طرح گود لے لیں کہ وہ جہاں تک پڑھنا چاہیں ان کی تعلیم کا سارا خرچ بغیر نام و نمود کے وہ برداشت کر لیں. ہماری ناقص معلومات کے مطابق نیاز احمد مالیگ (یوکے) حضرت صابر نورانی (مدنی دربار) ذاکر حاجی (سماجی کارکن) جیسے کئی افراد ہیں جو غریب والدین کی انتہائی خاموشی سے مدد کرتے ہوئے ان کے بچوں کو تعلیم و تعلم سے مربوط کئے ہوئے ہیں. یہ عزت ماب اشخاص ہیں کہ غریب اسکولی بچوں کی فیس ادا کرکے انھیں اعلی تعلیم کی جانب مائل کررہے ہیں. نونہالان ملت کو تعلیم و تعلم سے وابستہ رکھنے کے لئے یہ اصحاب خیر دامے درمے سخنے مسلسل اسکولی بچوں کی امداد و اعانت کرکے قوم مسلم کو دیا گیا اقراء کے سبق پر عمل پیرا ہورہے ہیں. کیا مالیگاؤں میں نیاز احمد مالیگ, حضرت صابر نورانی اور حاجی ذاکر کی طرح اور کوئی نہیں جو ڈراپ آؤٹ ہوتے ہوئے بچوں کو تعلیم و تعلم سے جوڑیں رکھے. ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ آواز صدا بصحرأ ثابت نہیں ہوگی. آج ملت ید بیضاء ایک بار پھر بانئ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید کی تلاش میں ہے اور جس دن یہ تلاش مکمل ہوگی وہ دن قوم و ملت کے لئے کسی نئے انقلابوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا مگر اس کے لئے شرط ہے کہ قوم و ملت کے دل میں بھی تعلیم و تعلم کا جذبہ طولانی موجزن رہنا چاہیے. ورنہ صرف اور صرف تحریر و تقریر کے تشہیر کا ذریعہ بن کر یہ کہنا کہ ہم اس ملت سے تعلق رکھتے ہیں جس کے ہادئ برحق کو غار حرا کے سرمئی پتھروں کے درمیان اقراء یعنی پڑھ کا درس دیا گیا تھا. جس قوم میں پڑھنے کی چاہت ختم ہو جائے. تعلیم و تعلم سے رغبت نہ رہے وہ قوم زوال کا شکار ہو جاتی ہے. لاکھ تشہیریں کچھ کام نہیں آتی. نام و نہاد تنظیموں اور انفرادی اشخاص کو غور و فکر کی ضرورت ہے کہ وہ تعلیم و تعلم کی صدق دل سے آبیاری کا جذبہ جگائے رکھنے کی کوشش کریں ورنہ دور بہت دور تلک تند سیاہی کا اتھاہ سمندر بانہیں پسارے کھڑا ہے. قوم کے نونہالوں کے دل میں علم کی شمعیں فروزاں رکھنے کی ضرورت ہے. کیونکہ.....
آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں