جزیرۃ العرب میں غزہ کا سقوط آخری سقوط نہیں ہے !
عمر فراہی
حقیقت پسند یا practical ہونا بری بات نہیں ہے لیکن اہل ایمان کا ہر فیصلہ مادہ پرستوں کی طرح علم ریاضی کے جوڑ گھٹانے اور ضرب کے حساب پر نہیں ہوتا۔کچھ معاملات میں قرآن اور اسلامی تاریخ نے اس کے بالکل برعکس کرشماتی اور معجزاتی تصویر پیش کی ہے ۔قرآن کی بہت سی آیات میں جو کوہ طور ملکہ سبا فرعون دریائے نیل سامری ،طالوت اور جالوت روم اور فارس کے بارے میں تذکرہ آیا ہے یہ کوئی دیو مالائی کہانیاں نہیں ہیں ۔قران میں ذکر کئے گئے بہت سے واقعات کی تصدیق دیگر آسمانی کتابوں سے بھی ہوتی ہیں ۔کوئی اندازہ کر سکتا تھا کہ روم فارس سے بری طرح شکست کھا کر پھر سے فتحیاب ہو سکتا تھا لیکن قرآن نے پیشن گوئی کر دی کہ رومی پھر سے غالب آئیں گے ۔بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔پڑوس کی ایک قوم سے مزاحمت کرکے دو سپر پاورں نے اپنا حلیہ بگاڑ لیا اور اپ وہ اپنی پسپائی سے اسرائیل کو سبق لینے کی بات کر رہے ہیں ۔
ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ سقوطِ غزہ آخری سقوط نہیں ہے ۔اگر اہل غزہ پسپا بھی ہو گئے تو بھی اس کا مطلب شکست نہیں ہوتا ۔وہ پچھلے ستر اسی سالوں سے حالت جنگ میں ہیں ۔ان کا دشمن پوری قوت اور ٹکنالوجی سے انہیں ختم کردینا چاہتا ہے مگر وہ ختم ہونا تو دور کی بات ہر بار نئے عزم کے ساتھ ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔اگر بالفرض وہ پسپا ہو بھی گئے جیسا کہ کچھ نام نہاد مسلمانوں کے گروہ کی بھی حسرت ہے تو بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب ڈھائی ہزار سال سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہودی ارض اسرائیل کی بنیاد ڈال سکتے ہیں تو فلسطینی دوبارہ اپنی مملکت کے مالک کیوں نہیں بن سکتے ؟
حقیقت پسند سیکولر لبرل اور مصلحت پسند طبقہ موجودہ اسرائیل فلسطینی جنگ کے تناظر میں دو باتیں کہتا ہے ۔
وہ کہتا ہے کیا ضرورت تھی حماس کو اسرائیل پر حملے کی پہل کرنے کی
اس نے جس طرح اسرائیل کو حملے کی دعوت دی ہے اب وہ بچے ہوۓ تھوڑے سے غزہ کو بھی چھین لے گا ۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تین بار کی جنگ میں عربوں کو بری طرح شکست ہو چکی ہے اور اسرائیل نے ان سے ان کے علاقے بھی چھین لیا ۔سچ یہ ہے کہ اگر عرب حکمرانوں نے مصالحت نہ اختیار کر کے اسرائیل کو جنگ میں مصروف رکھا ہوتا تو اسرائیل کا وجود کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا اور عرب مزید مضبوط ہوتے لیکن عرب حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے لئے اسرائیل سے خفیہ معاہدہ کرکے فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ دیا ۔جب عرب حکمرانوں نے فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ دیا یا عربوں کو فلسطینی بوجھ محسوس ہونے لگے تو فلسطینیوں نے اپنے حق کی جنگ خود لڑنا شروع کی ۔کیسے یاسر عرفات نے ان کی قیادت کی اور پھر کن حالات میں شیخ یاسین نے حماس کی بنیاد رکھی اس پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے ۔فلسطینیوں کے پاس کھونے کے لئے جو قیمتی سرمایہ باقی رہ گیا تھا وہ ان کی یہی غیرت اور حمیت تھی جسے ہم عام مفہوم میں حوصلہ مند قیادت کہتے ہیں ۔ہم پہلے بھی کسی مضمون میں لکھ چکے ہیں کہ کسی بھی قوم کا آخری سرمایہ ان کی پرعزم قیادت ہوتی ہے ۔یہ اگر چھن جاۓ یا کوئی قوم قیادت سے محروم ہو جاۓ تو پھر وہ قوم کے زمرے میں بھی نہیں آتی ۔اسےصرف ایک بھیڑ کہہ سکتے ہیں ۔روۓ زمین پر اس کی واضح مثال بھارت کے مسلمانوں کی ہے ۔
جو لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں نے 7 اکتوبر کو حملے کی پہل کیوں کی وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اگر وہ ایسا نہ بھی کرتے تو بھی اسرائیل نے کہاں اپنی پیش قدمی روک دی تھی ۔یہ لوگ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ جب حماس کے لوگوں نے بندوق بھی نہیں اٹھائی تھی تب بھی اسرائیل فلسطینیوں کو پابند سلاسل کرتے ہوۓ ان کے رہنماؤں کا قتل کرتے رہا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ حماس کے بانی شیخ یاسین جو کہ اپنی آنکھ اور پیر سے معزور تھے کئی سال تک اسرائیل کی جیلوں میں بند رہے اور بالاخر اسرائیل نے انہیں بے رحمی سے شہید کردیا ۔ایک مہینے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز الرنتیسی کو بھی اسی طرح شہید کیا ۔اسرائیل نے یہیں پر بس نہیں کیا۔جنوری 2011 میں اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کے تینتیس اہلکاروں نے برطانیہ کے پاسپورٹ سے دبئی کے اس ہوٹل میں پہنچ گئے جس میں حماس کے عسکری شعبے کے سربراہ محمود المبوح ٹھہرے ہوۓ تھے ۔انہیں اسی طرح قتل کیا ترکی میں سعودی سفارتخانے کے اندر جمال خشوگی کا قتل کیا گیا ۔فرق اتنا تھا کہ خشوگی کو آروں سے چیر دیا گیا اور محمود المبوح کو بجلی کے کرنٹ کے ذریعے شہید کیا گیا ۔ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح 1920 سے برطانیہ کی پشت پناہی میں یہودیوں نے منظم طریقے سے فلسطین میں قدم رکھنا شروع کیا ۔فوجی تربیت حاصل کی ہتھیار جمع کئے 1948 میں بالآخر انہوں نے اچانک انہیں اسلحوں کے زور پر ریاست اسرائیل کا اعلان کر دیا۔اس کے بعد انہوں نے فلسطینیوں کو کسی مضبوط قیادت کے ماتحت منظم نہ ہونے کا بھی منصوبہ بنا لیا تھا جس کا تذکرہ ہم اوپر کر چکے ہیں لیکن دیر سے ہی سہی فلسطینیوں کو یہ بات سمجھ میں آئی ۔وہ یاسر عرفات کی قیادت میں بھی متحد ہوۓ لیکن یاسر عرفات اپنی سیکولر شبیہ کی وجہ سے مغربی دنیا کی مکاری کا شکار ہو گئے ۔فلسطینیوں کے ایک طبقے کو یاسر عرفات کی زندگی میں ہی اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ یاسر عرفات راستہ بھٹک چکے ہیں انہوں نے شیخ یاسین کی قیادت میں حماس کے پرچم تلے متحد ہونا شروع کر دیا ۔شیخ یاسین نے انتفاضہ کی تحریک شروع کی جس کے ذریعے یقینا اسرائیل کو شکست دینا ناممکن تھا لیکن اس تحریک نے فلسطینیوں کے بچے بچے کے اندر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی روح پھونک دی ۔کہتے ہیں کہ محمود المبوح اور یحییٰ السوار شیخ یاسین کے ہی تربیت یافتہ بچے تھے جنھوں نے القاسم یا قسام بریگیڈیئر کی بنیاد رکھی جو پچھلے چالیس دنوں سے اسرائیلی فوجیوں سے متصادم ہیں۔محمود المبوح کو تو اسرائیل نے شہید کر دیا لیکن یحییٰ السوار جو کہ خود اسرائیل کی جیلوں میں پندرہ سال گزار چکے ہیں فی الوقت قسام بریگیڈیئر کی قیادت سنبھال رہے ہیں اور اسرائیل کو حماس کے جن لوگوں کی تلاش ہے اس میں یحییٰ السوار کا نام سر فہرست ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب اسرائیل پتھروں سے مزاحمت کرنے والے فلسطینی بچوں کو جیلوں میں ڈال کر یا ان کے رہنماؤں کو شہید کر کے ان کی مزاحمت کے جذبے کو سرد نہیں کر سکا اور وہ مزید طاقتور ہو کر سامنے آۓ اور اب جب وہ بموں سے ٹینکوں کو توڑ رہے ہیں تو کیا اسرائیل غزہ کو تباہ کرکے یا سقوط غزہ کے بعد امید کرتا ہے کہ حماس کا خاتمہ ہو جاۓ گا ؟ امریکی صدر جوبائیڈن نے تو دبی زبان میں نیتن یاہو کو مشورہ دے دیا تھا کہ وہ وہی غلطی نہ کریں جو ہم نے 9/11 کے بعد کیا تھا مگر کیا کیا جائے طاقت اقتدار اور سلطنت کا نشہ بہت دیر سے اترتا ہے !
فرعون کا بھی نشہ اس وقت اترا جب اس نے دریا میں ڈوبتے وقت موت کو قریب سے دیکھ لیا اور چیخنے لگا کہ اۓ موسی میں تمہارے خدا پر ایمان لاتا ہوں ۔یہی بات عرب کے ڈکٹیٹروں کو بھی جلدی سے سمجھ میں آ جاتی تو اچھا ہے ورنہ غزہ کا سقوط آخری سقوط نہیں ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں