src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 18 نومبر، 2023

 





غزہ پر حملے کی وجہ سے کیا عرب ممالک پہلے کی طرح مغرب کو تیل فروخت کرنا بند کریں گے؟







آج سے ٹھیک نصف صدی پہلے عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ یہ جنگ تاریخ میں ’یوم کپور کی جنگ‘ کے نام سے درج ہے۔ اس جنگ میں امریکہ نے نئی بننے والی یہودی ریاست اسرائیل کا ساتھ دیا تھا۔

عرب ممالک نے انتقامی کارروائی کے طور پر مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روک دی تھی۔ عرب ممالک کے اس فیصلے نے عالمی معیشت، توانائی کی پالیسی اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا تھا۔

اس واقعے کے پورے 50 سال بعد ایسا لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اسرائیل پر حملہ ہوا ہے، امریکہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، عرب ممالک ناراض ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بار بھی عرب ممالک مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روک دیں گے؟

اگر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تیل اور گیس سے مالا مال ممالک ایک بار پھر پیداوار میں کمی اور ’غیر دوست ممالک‘ تک سپلائی محدود کرنے پر راضی ہو گئے تو عالمی معیشت کے سامنے ایک بڑا بحران کھڑا ہو جائے گا۔


عالمی معیشت ابھی تک کووڈ 19 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال، چین کے ساتھ مغربی ممالک کی تجارتی جنگ، روس کے یوکرین پر حملے اور یورپ کے خلاف گیس کی جارحانہ پالیسی سے نبرد آزما ہے۔ کیا تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک اور روس ایک بار پھر مغرب کے خلاف اپنا تیل ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا مغربی دنیا اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟


تیل کی سپلائی روکنے کا آپشن


بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے سربراہ فاتح بیرول کہتے ہیں: ’یوم کی کپور جنگ کے وقت کی صورت حال اور آج مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے درمیان کچھ مماثلتیں ہیں، لیکن کچھ فرق بھی ہیں۔ دنیا کی توانائی کی مارکیٹ ستر کی دہائی کے بعد سے ڈرامائی طور پر بدل چکی ہے اور یہ مسلسل بدل رہی ہے۔‘

عرب ممالک کی جانب سے تیل کی سپلائی روکنے کے فیصلے کے بعد مغربی ممالک نے انٹرنیشنل انرجی ایجنسی بنائی تھی۔

آئی ای اے کے سربراہ فاتح بیرول کا کہنا ہے کہ ’دنیا پچاس سال پہلے کے مقابلے اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے زیادہ تیار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے؟‘

تاہم اسرائیل کے مخالفین اور فلسطین کے حامیوں نے ابھی تک سرکاری طور پر مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روکنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔

لیکن 7 نومبر کو ایک کانفرنس کے دوران سعودی عرب کے وزیر خالد الفالح سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا ملک جنگ کے خاتمے کے لیے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار ہے؟

تو خالد الفالح نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’ہم آج اس آپشن پر غور نہیں کر رہے، سعودی عرب امن مذاکرات کے ذریعے امن حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘

اسرائیل حماس جنگ کے 35 دن بعد 11 نومبر کو ہونے والی عرب اور اسلامی ممالک کی پہلی کانفرنس میں تیل کی سپلائی روکنے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

ان ممالک نے امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے بہت کچھ کہا لیکن توانائی کی پابندیوں پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای جو امریکہ اور اسرائیل کے دشمن کے طور پر جانے جاتے ہیں انھوں نے اسرائیل کو تیل کی سپلائی محدود کرنے کی تجویز پیش کی لیکن اسے دوسرے ممالک کی حمایت نہیں ملی۔


اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اسرائیل کی درآمدات سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہیں۔ یہ روزانہ تین لاکھ بیرل تیل خریدتا ہے اور اسے تیل فراہم کرنے والے ممالک میں قازقستان اور آذربائیجان بھی شامل ہیں۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کی اپیل پر عرب اور اسلامی ممالک نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کی تنظیم تیل کی فراہمی کے معاملے پر سیاست کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

لیکن اوپیک پلس ممالک اس بارے میں کیا سوچتے ہیں یہ 26 نومبر کو ہونے والے ان کے اگلے اجلاس میں معلوم ہو جائے گا۔

جب دو بار تیل کی سپلائی روکی گئی

متنازع فلسطینی سرزمین میں فوجی اور انسانی بحران پیدا ہونے کی صورت عرب ممالک اور ایران میں 1950 کی دہائی سے مغربی ممالک کے خلاف تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر بحث کر رہے ہیں۔

اس نے اس مدت میں دو بار تیل کی سپلائی بھی روکی ہے۔ سب سے پہلے 1967 میں چھ روزہ جنگ کے دوران اور پھر 1973 میں یوم کپور جنگ کے دوران۔ پہلی پابندی موثر نہیں تھی لیکن دوسری پابندی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔

ان واقعات سے مغرب اور عرب ممالک نے اپنا سبق سیکھا۔ اس لیے اب نہ کوئی تیل کی سپلائی روکنے کی بات کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

پچاس سال پہلے اسرائیل کا خیال تھا کہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرے گا اور اسی طرح امریکہ کو لگا کہ عرب ممالک تیل کی سپلائی نہیں روکیں گے۔ لیکن یہ دونوں چیزیں ہوئیں

اسرائیل پر حملے کے دس دن بعد عرب ممالک نے امریکہ، ہالینڈ اور کئی مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روک دی۔ یہی نہیں خلیج فارس کے شیخ اور ایران کے شاہ نے تیل کی قیمتوں میں 70 فیصد اضافے پر اتفاق کیا۔

ایک طرف تیل کی سپلائی بند ہونے اور دوسری طرف عرب ممالک کی جانب سے پیداوار میں کمی کے باعث تیل کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ ان سالوں میں تیل دنیا میں توانائی کا بنیادی ذریعہ تھا اور اس کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے عالمی معیشت مشکلات کا شکار ہوئی تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ، جاپان اور امریکہ کی کرشمائی انداز میں بڑھتی ہوئی معیشتیں ٹھپ ہو گئیں۔

امریکی معیشت 1973 اور 1975 کے درمیان چھ فیصد سکڑ گئی اور بے روزگاری کی شرح نو فیصد تک بڑھ گئی۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار جاپان کی جی ڈی پی میں کمی آئی۔ لیکن انڈیا اور چین سمیت ایسے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے جو خود تیل پیدا نہیں کرتے تھے۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages