src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 24 نومبر، 2023











خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر   






کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی





کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی 

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی 


بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی 

چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی 


سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا 

ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی 


دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں 

شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی 


اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا 

اب جو پلٹ کے دیکھیےبات تھی کچھ محال بھی


میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر 

ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی 


اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں 

اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی 


گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب 

اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی 


اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے 

جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی 


شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا 

موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی




✧✧✧✧✧✧✧✧✧✧✧✧✧



 


وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا




وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا 

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا 


ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا 

کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا 


وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے 

ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا 


وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے 

موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا 


آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی 

تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا 


مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث

جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages