سعودی عرب کی حکومت کا فلسطین کے مظلوموں کے لئے "ساھم" پروگرام
از! محمد عارف عمری
رکن مجلس عاملہ جمعیۃعلماء مہاراشٹر
تقریباً ایک صدی سے خطہ عرب میں فلسطین کامسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے، جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کی نو آبادیات کے قیام کی منظوری دی اور درپردہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی، جس کے نتیجے میں 1948 میں اس سرزمین پر "اسرائیل" کا وجود ہوا۔
برطانوی حکومت نے اپنے زیر تسلط ممالک میں جگہ جگہ اختلافات کے بیج بوئے تاکہ عملی اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی وہ ان ممالک میں منصفی اور ثالثی کے منصب پر فائز رہے، جنگ عظیم دوم کے بعد برطانیہ کی پوزیشن کمزور ہوگئی تاہم اسی کی ہم نسل قوم امریکہ نے اس کی جگہ سنبھال لی اور ثالثی کے نام پر عالمی سطح کے ممالک کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کرنے اور فریقین کو ہتھیار فروخت کرنے کا منافع بخش کاروبار شروع کر دیا،برصغیر کو بھی تقسیم کیا، اور ان کے درمیان ایل او سی (لائن آف کنٹرول) قائم کرکے ایک دوسرے کو مسلسل نبرد آزما ہونے کی راہ ہموار کی، ہندوستان اور پاکستان نے کارگل سمیت تین جنگیں لڑیں، تاہم ان دونوں ملکوں نے اپنے ترقیاتی منصوبوں کو متاثر نہیں ہونے دیا جس کے سبب یہ دونوں ملک ایٹمی توانائی کے حامل بن گئے۔
اس کے بر عکس اقوام متحدہ (جو کہ بنیادی طور پر امریکہ کے مفادات کی حفاظت کا ادارہ ہے) نے فلسطین کے تین ٹکڑے کئے، ایک حصہ جو نصف سے زائد رقبہ پر مشتمل تھا، اسرائیل کے حوالے کیا اور نصف سے کم حصہ قدیم باشندوں (فلسطینیوں) کے لئے رکھا اور مقدس شہر "یروشلم" کو بین الاقوامی درجہ دیتے ہوئے اپنی تحویل میں رکھا، یہ تقسیم غیر منصفانہ تھی، اس لئے عرب ممالک نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، امریکہ کی پشت پناہی کے سبب اسرائیل درپردہ کافی طاقتور ہوچکا تھا، چنانچہ جب پڑوسی عرب ممالک نے اسرائیل کے ناجائز تسلط کے خلاف طاقت آزمائی کی تو ان کو لگاتار 1948 - 1967 - 1973 میں پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا، فلسطینی کے باشندے کسی بھی جنگ کے بعد ہمت نہیں ہارے اور قابض اسرائیل کے خلاف مسلسل کوشش کرتے رہے، فلسطینیوں کی تنظیم "الفتح" نے برابر سفارتی اور بین الاقوامی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے جائز مطالبات کو اقوام عالم کے سامنے رکھا لیکن امریکہ کی ننگی حمایت کی وجہ سے یہ مطالبات رو بعمل نہ آسکے، بلکہ اسرائیل دن بہ دن جری ہوتا گیا، اقوام متحدہ کی قرارداوں کو امریکہ "ویٹو "کرتا رہا اور عالمی برادری کی کوشش سے جو معاہدے تیار کئے جاتے ان کو اسرائیل اپنے پیروں تلے روندتا رہا۔
اس صورت حال کا فطری رد عمل یہ ہوا کہ نوجوان فلسطینیوں کی ایک جماعت "حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ" کے نام سے 1986 میں وجود میں آئی اور اس نے ٹھیک وہی راستہ اختیار کیا جو انگریزوں کے خلاف سبھاش چندر بوس نے "آزاد ہند" فوج بناکر ہمارے ملک کی آزادی کے لئے اختیار کیا تھا، اس تنظیم کو شارٹ فارم میں "حماس" کہا جاتا ہے، اور اس کے نوجوان 40 سال سے اپنے ملک کی آزادی کے لئے مسلسل بر سر پیکار ہیں، لیکن اسرائیل جیسی طاقت کے مقابلے میں ان کے وسائل محدود ہیں، اس لئے ہر جھڑپ کے بعد فطری طور پر فلسطینیوں کو کافی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
سعودی عرب کی حکومت ہمدردی کی بنیاد پر ہمیشہ فلسطینیوں کی امداد کرتی ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس محاذ پر سعودی عرب کا رول تمام ملکوں کے مقابلے میں نمایاں رہتا ہےاس ضمن میں ایک اصولی بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ دنیا کے موجودہ سسٹم میں ممالک کی جو حد بندیاں مقرر کر دی گئی ہیں، ان کو پھلانگ کر کسی کمزور ملک کی مدد کرنا آسان کام نہیں ہے، بالخصوص ایسے ممالک کے لئے جو اسلحہ سازی کے میدان میں اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتے ہیں، عرب ملکوں نے ماضی میں جذبات سے زیادہ کام لیا اور عملی واقعیت پر توجہ نہیں دی جس کے نقصانات ان کو اٹھانے پڑے، اس کے بالمقابل ہندوستان نے اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور چین کی در اندازیوں کو حکمت عملی کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی۔
اس وقت حماس کے نوجوانوں نے 7 اکتوبر 2023 سے اپنی تحریک آزادی کی جنگ چھیڑ رکھی ہے، حسب سابق فلسطینیوں کا جانی اور مالی نقصان زیادہ ہوا ہے اور ہورہا ہے لیکن اس جھڑپ نے ایک مقابل کی جنگ کی صورت اختیار کر لی ہے، فلسطینیوں نے خاصی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے، ان کے ناقابل تسخیر کہے جانے والے ٹینکوں کے پرخچے اڑا دئے ہیں، اور اول وہلہ میں متعدد اسرائیلی کالونیوں میں گھس کر سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ پہنچایا ہے اور کافی تعداد میں وہاں کے لوگوں کو یرغمال بنایا ہے، اسرائیل نے میدان جنگ کی اس شکست کا انتقام نہتے شہریوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر بمباری کرکے اور ان کے مکانات کو تہس نہس کرکے لینے کی کوشش کی ہے، جس کی مذمت پوری دنیا میں کی جا رہی ہے۔
اس بھیانک جنگ کو تقریباً ایک مہینہ ہونے جا رہا ہے، اسرائیل کی پشت پر امریکہ، فرانس اور یورپین ممالک کھڑے ہیں، اس کے بالمقابل حماس کی تائید میں مختلف ممالک کے بیانات تو آئے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی ملک ان کی حمایت میں نہیں آیا ہے اور نہ ہی اس کا امکان ہے، حماس کے مجاہدین کو طالبان کے طرز پر اپنے ملک کی آزادی کی جنگ خود لڑنی ہوگی، یہ دنیا کا دستور رہا ہے کہ اپنے ملک کی جنگ خود اس ملک کے باشندوں نے لڑی اور جیتی ہے، برطانیہ کے مقابلے میں ہندوستان کے جیالے بہادروں نے 90 سال جنگ کی ہے اور اپنے جان و مال کی قربانی دی ہے، تب جاکر آزادی کا سورج طلوع ہوا ہے۔
روس اور امریکہ کے خلاف افغانستان کے باشندوں نے 40 سال تک جنگ کرکے لاکھوں انسانوں کی جانیں قربان کی ہیں، تب جاکر ایک آزاد اور خود مختار ملک کے مالک ہوئے ہیں، اسی طرح فلسطین کے مجاہدین کو اپنی محنت اور جاں فشانی سے اپنا ملک آزاد کرانا ہوگافلسطین کی موجودہ صورتحال میں سعودی عرب کی حکومت اور عوام نے مظلوموں کی امداد کے لئے سب سے زیادہ حصہ لیا ہے، ساھم کے عنوان سے ایک ریلیف امدادی فنڈ قائم کیا ہے جس میں خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے 30 ملیون ریال (تین کروڑ ریال) کی خطیر رقم عطیہ کی ہے، سعودی حکومت کے وزیراعظم اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان حفظہ اللہ نے 20 ملیون ریال (دو کروڑ ریال) اور مختلف کمپنیوں کے مالکان نے 2 ملیون، ایک ملیون اور اس سے کم حسب حیثیت عطایا جات کا اعلان کیا ہے، ذیل میں اس کی تھوڑی سی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان حفظھما اللہ کے اعلان عام اور خصوصی اپیل کی بنا پر صرف ایک دن میں تین لاکھ نوے ہزار افراد نے فلسطینی مظلوموں کی مدد کے لئے حصہ لیا اور یہ سلسلہ متواتر جاری ہےچند اہم عطیہ دہندگان کے نام اور ان کے چندہ کی تفصیل حسب ذیل ہے
1-شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ - 30 ملیون
2-ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان حفظہ اللہ - 20 ملیون
3-مؤسسۃ عبداللہ العثیم وابناء-10 ملیون
4-مؤسسۃ ابو غزالہ للتنمیۃ والبیک - 10 ملیون
5-مؤسسۃ حیاۃ الخیریۃ - 10 ملیون
6-ایک صاحب خیر (جنھوں نے اپنا نام ظاہر کرنا پسند نہیں کیا) 2 ملیون
7-مؤسسۃ محمد ابراھیم السبیعی - 2 ملیون
8-ھنفرتیشن کمپنی لیمیٹڈ - 2 ملیون
9-ماکڈونالڈ السعودیۃ - 2 ملیون
10-مؤسسۃ سالم بن محفوظ الاھلیۃ - 2 ملیون
11-مؤسسۃ الولید الانسانیۃ - 1 ملیون
12 - الشیخ عبدالعزیز احمد محمد بغلف - 1 ملیون
13 - اوقاف الامیر متعب بن عبدالعزیز آل سعود - 1 ملیون
14 - مؤسسۃ عبداللہ بن ابراھیم السبیعی الخیریۃ - 1 ملیون
15 - شرکۃ سلسلۃ مقاھی - نصف ملیون (پانچ لاکھ ریال)
16-مؤسسۃ الامیر طلال بن عبدالعزیز الخیریۃ - نصف ملیون
17 - طلال وطارق ابناء عمر العقاد - نصف ملیون
18 - المسافر للسفر والسیاحۃ - نصف ملیون
19 - اوقاف محمد بن عبداللہ الجمیح الخیریۃ - تین لاکھ
20 - ساین - ڈھائی لاکھ
21 - وقف محمد بن صالح العذل - ڈھائی لاکھ
22 - مؤسسۃ عبد العزیز بن طلال و سری بنت سعود للتنمیۃ الانسانیۃ - دو لاکھ
23 - سیدۃ الاعمال امیرۃ الطویل - ایک لاکھ ریال
مندرجہ بالا تمام رقوم ریال کی شکل میں ہیں اور سعودی حکومت نے چندہ جمع کرنے کا لنک بھی شیئر کیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں