src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> خُدایا تو ہی بیت مقدس کی پاسبانی کر - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 22 اکتوبر، 2023

خُدایا تو ہی بیت مقدس کی پاسبانی کر

 








خُدایا تو ہی بیت مقدس کی پاسبانی کر  



(مفتی) شفیع احمد قاسمی  استاذ جامعة ابن عباس، احمد آباد



 بتیس دانتوں کے بیچ ایک زبان، یہ مثل اور کہاوت بارہا آپ کی سماعتوں سے ٹکرایا ہوگا، کثرت سے لوگ اس مثل کو بولتے ہیں ،اس کا صاف مطلب  یہ ہوتا ہے، زبان بیچاری بے بس و بےکس ہے، بتیس دانتوں کے حصار میں گھری ہوئی ہے، ہرطرف سے اسے دبائے جانے کا خطرہ لگا رہتا ہے، درحقیقت اس مقولہ سے ڈھیر سارے دشمنوں کے بیچ ایک مظلوم و مقہور کی بیچارگی اور بےبسی کو اجاگر کرنا ہوتا ہے،اور یہ کہاوت اپنے  اپنے موقع و محل میں مستعمل ہوتی ہے، لیکن عرب اسرائیل پر یہ کہاوت بالکل الٹی ہوگئی ہے، اسلئے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں ایک چھوٹی سی ریاست ہے، بلکہ اسے ریاست کہنا ہی غلط ہے، اس نے تو فلسطینیوں کی زمین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے، اس کی اپنی کوئی زمین نہیں ہے، چاروں طرف سے یہ اسلامی ملکوں کے حصار میں گھرا ہوا ہے، ہونا تو یہ چاہیے، کہ وہ ڈرا سہما رہے، ہر وقت وہ خوف سے لرزاں ترساں رہے، لیکن معاملہ بالکل الٹا ہے، کہ یہ اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے، کبھی لبنان پر حملہ آور ہوتا ہے، تو کبھی سیریا پر بمباری کرتا ہے، پھر کبھی مصر اور جورڈن کو دھمکاتا ہے، جب اسے اپنے ہتھیاروں کا نشہ چڑھتا ہے، تو فلسطینی باشندوں کو خاک و خون میں تڑپا تا ہے، جب اس سنکی کو سنک چڑھتی ہے، تو غزا میں کسی بے گناہ مظلوم کا گھر بلڈوز کرتا ہے، اور کھلے آسمان تلے اسے زندگی جینے پر مجبور کردیتا ہے ، جب اسے اپنی بے پناہ طاقت کا خمار چڑھتا ہے، تو مسجد اقصی میں خدا کے آستانہ پر سر رکھنے والوں پر اندھا دھن گولیاں چلواتا ہے، جب کہ وہ بے گناہ ہوتے ہیں، ان کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے ،کہ وہ آستانہ خداوندی پر سرافگندگی کرتے ہیں، وہ اپنے مذہبی و آبائی وطن سے دست بردار ہونے سے انکار کرتے ہیں، ان کا جرم اس کے سوا کچھ نہیں ہےکہ وہ سر زمین انبیاء شہر القدس کی حفاظت کرتے ہیں، وہ مسجد اقصیٰ کے تحفّظ کیلئے اپنی جان مال اور اولاد کی قربانی پیش کرتے ہیں، جس کی حفاظت و نگہداشت پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری اور فرض منصبی تھی_لیکن بد قسمتی سے آج اس کی پاسبانی و حفاظت کی ذمہ داری تنہا فلسطینیوں کے ناتواں کاندھوں پر چھوڑ دیا گیا ہے، بھلا ہمیں بتائیں کہ اسرائیل ان نہتے فلسطینیوں پر کیوں مظالم کے پہاڑ توڑتے ہیں، کیوں ان کے معصوم پھولوں کو کھلنے سے پہلے ہی وہ مسل دیتے ہیں، کیوں ان کی عورتوں کو بیوگی اور ان کے بچوں کو یتیمی کے دکھ سہنے پر مجبور کرتے ہیں، کیا اس کے سوا کوئی اور وجہ ہے، کہ وہ مسجد اقصی کی پاسبانی و حفاظت میں شب وروز مگن ہیں، اور اس کے لیے وہ دنیا کی عزیز سے عزیز تر چیز نثار کرنے سے دریغ نہیں کرتے، لیکن اچنبھے کی بات یہ ہے کہ جب کبھی فلسطین کے بے گناہوں پر گولیاں برسائی گئیں، جب انہیں خاک و خون میں تڑپا یا گیا، تو سارے ہی اسلامی ممالک تماش بیں بن کر تماشہ دیکھتے ہیں، اور یہ تصور کرتے آئے ہیں کہ یہ دو ملکوں یا دو جتھوں کا آپسی نزاع ہے، ہمیں اس میں پڑنے کی ضرورت نہیں، اسی بناء پر اکثر اسلامی ممالک مسئلہ فلسطین میں اپنی چپی توڑنا بھی گناہ تصور کرتے ہیں، ایسی خاموشی سادھ لیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے،اس معاملےمیں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے چاہے مسجد اقصی رہے، یا صفحہِ ہستی سے مٹ جائے، شاید بعضوں کو اسکی غیرت اسلامی للکارتی ہے، یا اس ملک کے غیور باشندے احتجاج کرتے ہیں، حکومت وقت پر دباؤ بناتے ہیں، تو کرسی اقتدار پر براجمان ہمارے فرمانروا حرکت میں آتے ہیں، اور مذمتی بیان جاری کرتے ہیں اور اسی کو اخوت اسلامی کی فرض منصبی کی ادائیگی سمجھ بیٹھتے ہیں، کیا واقعہ یہی ہے، ہمسایہ اسلامی ممالک کی صرف اتنی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسجد اقصی پر یا نہتے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا مذمتی بیان جاری کر دیں،اور بس ، میرے خیال میں ان ہمسایہ اسلامی ملکوں پر تین پہلوؤں سے حقوق عائد ہوتے ہیں_١_ اول تو جب کسی ملک پر کوئی پڑوسی ظالم فرمانروا غاصبانہ تسلط قائم کرنا چاہے،اس کے باشندوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے ، تو اس مظلوم کے تمام پڑوسی ملکوں پر ضروری ہے، کہ وہ اپنی پوری جد وجہد کے ساتھ ظالم و مظلوم ہر دو کی مدد کریں، سرورِ کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالی فرمان ہے_ ‌ انْصُرْ أَخاكَ ظالِمًا أَوْ مَظْلُومًا. الصحیح للبخاری (٢٤٤٣)ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کے پنجۂ ظلم کو مروڑ دیں، اس کے جبر و تشدد کی کلائی کو توڑ دیں ، اور مظلوم کی امداد یہ ہے کہ ظالم کے جبر و قہر سے اسے تحفظ فراہم کریں، یہ تو پڑوسی اور ہمسائیگی کا حق ہے_۲_دوسرا حق اخوت اسلامی کا ہے، اخوت اسلامی کا رشتہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ کس قدر مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اسے ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں ،  الْمُسْلِمُونَ كَرَجُلٍ واحِدٍ، إنِ اشْتَكى عَيْنُهُ، اشْتَكى كُلُّهُ، وإنِ اشْتَكى رَأْسُهُ، اشْتَكى كُلُّهُ. الصحيح لمسلم (٢٥٨٦) تمام مؤمن ایک شخص کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے، تو سارا جسم اس سے تکلیف محسوس کرتاہے، اگر اس کے سر میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم اس سے تکلیف محسوس کرتاہے،   إنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كالْبُنْيانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا.‌الصحيح لمسلم(٢٥٨٥) ایک مومن دوسرے مومن کیلئے عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی مضبوطی کا باعث ہوتا ہے، الخ : پہلی حدیث پاک نے اخوت اسلامی کا مطلب بلکل صاف اور واضح کردیا ، کہ اگر بے گناہ فلسطینیوں پر بمباری ہوتی ہے، تو اخوت اسلامی کی بناء پر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بموں کی برسات ہم پر ہوئی ہے، راکٹیں ہم پر داغی جارہی ہیں، اگر اس سے شہر القدس کے باشندوں کی جانیں تلف ہو رہی ہیں، وہاں کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو رہے ہیں، تو ہمیں یہ تصور کرنا ہوگا ، کہ ہمارے گھروں میں موتیں ہورہی ہیں، ہماری بہو بیٹیاں بیوہ ہو رہی ہیں، ہمارے اپنے گھر کے بچے یتیم ہورہے ہیں، ذرا یہ سوچ کر دیکھئے ، ہماری سگی بہن کی شہادت ہوگئی، باپ بھائی یا ماں کی شہادت ہوگئی،  صدمات سے ہی دل بیٹھ جاتے ہیں، جب یہ تصور ہمارے ذہن و دماغ پر چھا جائے، کہ ہمارے اپنے لٹ رہے ہیں بےگھر ہورہے ہیں، تو پھر اس سے جو بے چینی و بےقراری کی کیفیت پیدا ہوگی، جو سوز و گداز اور تڑپ و لگن پیدا ہوگی، وہی حقیقت میں اخوت اسلامی ہے، تو اس رشتہ کا تقاضا یہ ہے کہ اگر دنیا کے کسی گوشے اور چپے میں کسی اہل ایمان کو ظلم وبربریت اور جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جائے، تو رشتہِ اخوت اسلامی کی بناء پر دنیا بھر میں جہاں کہیں مسلمان آباد ہوں ، بیک وقت تمام گوشوں سے اس ظالم کے خلاف زور دار آوازیں بلند ہونی چاہئیں، اس ظالم کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، اور اپنے مظلوم اسلامی بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہیے، اور ان کو ہر طرح کا تعاون کرنا چاہیے، ۳_تیسرا حق مذہبی ہے، اور وہ یہ کہ مسجد اقصی اور شہر بیت المقدس سے مسلمانوں کا ایک اٹوٹ رشتہ ہے، وہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے، اس پاک زمین کو نہ صرف بےشمار نبیوں کی جائے ولادت ہونے کا شرف حاصل ہے، بلکہ وہ ان کا مدفن بھی ہے، اور بلا کسی تفریق ہم تمام ہی انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں، پھر پاک اور پوتر مسجد اقصی میں آقائے نامدار سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی ہے، اور اسی بابرکت سرزمین سے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج ہوئی ہے ، لہذا ہم مسلمانوں کا اس سرزمین سے دیرینہ اور ٹھوس رشتہ رہا ہے، پس ہر حال میں اس بابرکت سرزمین کی حفاظت و نگہداشت صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کی فرض منصبی ہے _ اللہ تعالیٰ ارض مقدس اور مسجد اقصی کی حفاظت فرمائے آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages